سلمان سعید اردو اور پنجابی کے معروف شاعر اور پاکستان ٹیلی وژن کے سینئر پروڈیوسر تھے۔ لاہور کے بارے میں انہوں نے شاندار دستاویزی پروگرام کیے۔ مثلاََ لاہور کی شامیں اور لاہور کے بارہ دروازے۔
26جولائی کو سلمان سعید، شیخ زاید ہسپتال میں اپنے عارضی سفر کی تکمیل کر گیا۔ چند ماہ قبل پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لنگوئج ، آرٹ اینڈ کلچر کے میگزین ’’ترنجن‘‘ میں ان کا آرٹیکل بعنوان ’’تنویر ظہور نال زندگی دی دھپ چھاں دا سفر‘‘ شائع ہوا۔ ایک پیراگراف ملاحظہ کریں ’’1976ء وچ جدوں میں پاکستان ٹیلی وژن لاہور سنٹر نال بطور پروڈیوسر وابستہ ہویا تے تنویر ظہور چل کے مینوں مبارک باد دین واسطے میرے کول اپڑیا۔ اوہناں دناں وچ ای اوہنے اپنا مہینہ وار رسالہ ’’سانجھاں‘‘ شروع کیتا تے پرچے دے ہر شمارے وچ میریاں نظماں چھاپیاں۔ زندگی دی دھپ چھاں دے سفر وچ اج تنویر تے میری دوستی نوں تقریباََ 44 ورھے بیت چکے نیں۔ ا یہناں 44 ورھیاں وچ تنویر نے دو درجن توں ودھ کتاباں لکھ کے ادب وچ اوہ مقام حاصل کر لیا اے، جیہڑا ہر کسے دے نصیب وچ نہیں ہوندا۔ میری دعا اے کہ رب اوہنوں ہمیشہ ہسدا وسدا تے آباد رکھے۔ آمین‘‘ ۔
سلمان سعید نے میرے ساتھ دھوپ اور چھاؤں کے اس 44 سالہ سفر کو دو صفحات میں سمیٹ دیا تھا، یہ ان کا کمال بلکہ فنکارانہ مہارت تھی۔ وہ کوئی فالتو حرف نہیں لکھتا تھا۔ ان کی نظمیں بھی عام طور پر تین یا چار مصرعوں پر مشتمل ہوتیں۔ ’’سجرے حرف‘‘ اور ’’چپ کھلوتے پانی‘‘ کے بعد ان کاتیسرا پنجابی شعری مجموعہ ’’جاندیاں رُتاں دے پرچھاویں‘‘ شائع ہوا تو پڑھ کے محسوس ہوا کہ وہ اپنی سوچ، فکر، نظریے اور مشن سے پیچھے نہیں ہٹا۔ چھوٹی نظم ان کی شناخت تھی۔ چھوٹی نظم کا ڈھنگ انہیں فرانسیسی شاعر ملارمے کے قریب لے جاتا ہے۔ ان کی نظموں میں انسانوں کے ساتھ زیادتی، ظلم کے خلاف آواز، استحصالی طبقے اور آمروں کے کرپٹ سسٹم پر احتجاج پایا جاتا ہے۔ زندگی کے بارے میں سلمان کا وژن ایک جدید Mistic کا وژن ہے۔ ان تجربوں کو انہوں نے اپنی بعض نظموں میں بیان کیا ہے۔؎
اک رستے تے
کرب اذیت
بھورا بھورا موت
دوجے رستے دے جھکڑاں وچ
اکلاپے دی
جوت!
سلمان سعید کے والد پروفیسر احمد سعید بھی اردو اور انگریزی کے معروف ادیب تھے۔ ان کے ناول اور افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ اردو کتب داغ داغ اجالا (ناول) شکستہ آئینے۔ غلغلہ شامل ہیں۔ قائداعظم، ٹیپو سلطان اور شیر شاہ سوری پر ان کی کتابیں انگریزی میں شائع ہوئیں۔ احمد سعید 13 جنوری 1988 ء کو کیلے فورنیا (امریکا) میں تقریباََ 68 برس کی عمر میں وفات پا گئے۔ ان کی تدفین قبرستان ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہوئی۔ وفات کے وقت سلمان سعید کی عمر 67 برس تھی۔ ایک روز فون پر انہوں نے مجھے کہا ’’مینوں لگدا اے کہ اپنے والد دی عمر دے قریب قریب میں وی اللہ نوں پیارا ہو جاواں گا‘‘ سلمان کے والد کا انتقال جنوری میں ہوا۔ اس حوالے سے انہوں نے نظم لکھی۔
نویں ورھے نے عجیب اک
تحفہ مینوں دتا سی
میرا وچھڑیا پیو مینوں
بکسے وچ واپس کیتا سی
دنیا نوں ایہہ کیویں میں دساں
اوہدا میرا رشتہ کیہ سی!
سلمان سعید کا تعلق ایک علمی، ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کا چچا ابو سعید انور بھی شاعر، صحافی اور مقرر تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن رہے۔ ابو سعید انور کی وفات 1984ء میں ہوئی۔ ’’جاندیاں رُتاں دے پرچھاویں‘‘ میں سلمان سعید نے آزاد اور نثری شاعری کے علاوہ غزلیں، وطن کے گیت اور ماہیے بھی شامل کیے۔ یہ ماہیے جدید اور نئے فہم کے حامل ہیں۔ ایک ماہیا ہے۔ ؎
ٹھنڈی وا پئی وگدی اے
اک قبر دے دیوے دی
اک لو پئی جگدی اے!
منیر نیازی نے ان کی شاعری کو ایک نئی اور طاقت ور رویے کا حصہ قرار دیا۔ سلمان سعید کی ایک نظم ’’حقیقت‘‘ ملاحظہ کریں: ۔؎
کیہڑا رُکھ اے جس دے پتر
مٹی وچ نہیں رُلدے
کیہڑا گھر اے جس دے بوہے
قبراں ول نہیں کھلدے
ان کی اردو شاعری کا مجموعہ ’’درد سے بوجھل ہوا‘‘ 2009ء میں شائع ہوا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں بعض پروڈیوسرز کو پی ٹی وی سے فارغ کر دیا گیا ان میں سلمان سعید، شاہد محمود ندیم اور شرافت نقوی شامل تھے۔ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کو بحال کیا گیا۔ سلمان سعید پنجاب آرٹ کونسل میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ سلمان کی شاعری میں گل و بلبل، کا کل ور خسار اور جام و مینا کے فرضی قصوں کے بجائے حقیقت پسندانہ افکار ملتے ہیں۔ نظم ’’جیون توںودھ عذاب‘‘ میں وہ کہتا ہے۔؎
ساری رات میں
جاگ کے کٹی
اک پل لئی وی
اکھ نہ لگی
یاداں میری
جان نہ چھڈی!
سلمان سعید کی رہائش ماڈل ٹاؤن کے جے بلاک میں تھی۔ یہ ان کا آبائی گھر تھا۔ منیر نیازی کی رہائش بھی ان دنوں ماڈل ٹاؤن بی بلاک میں تھی۔ ایک دن سلمان نے اپنی رہائش گاہ پر منیر نیازی کو کھانے کی دعوت دی۔ مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ کھانے کے بجائے ہم منیر نیازی کی گفتگو سے محظوظ ہوتے رہے۔ یہ ایک یادگار نشست تھی۔ قورمہ مسالے دار تھا۔ نیازی صاحب نے کہا ’’دیگی سالن دا سواد آ گیا اے‘‘ ازاں بعد منیر نیازی ٹاؤن شپ اور سلمان سعید فیصل ٹاؤن شفٹ ہو گئے۔ سلمان سعید کا بیٹا عماد اور بیٹی ادعیہ امریکا میں مقیم ہیں۔ فیصل ٹاؤن وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ مقیم رہا۔ انہوں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کے بارے میں بھی نظمیں کہیں۔ بیٹے کے بارے اپنی نظم میں انہوں نے سنسان راہوں میں اس کی تلاش کرنے کی بات کی ہے اور بیٹی بارے نظم میں ان کو اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے۔ سلمان سعید کی اس نظم پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔؎
ساری حیاتی
جیہڑا بندہ
پتھر دل جیہا لگدا سی
وچھڑن ویلے
مینوں گل نال لا کے
رویا سی! ٓٓٓٓٓٓ
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024