سیاستدانوں کی شاعری اور گلوکاری
اثر چوہان.........
صدر ایوب خان کے دور میں ، بلوچستان سے مغربی پاکستان اسمبلی کے شاعر رُکن، میر عبدالباقی بلوچ کی ایک غزل کا یہ شعر بہت مشہور ہوا تھا۔
”سات سمندر‘ پار سہی وہ‘ لیکن باقی، دِل کا حال
اِس ساحل سے‘ اُس ساحل تک، سب پہنچایا موجوں نے“۔
ایم کیو ایم کے محبوب قائد‘ الطاف حسین المعروف الطاف بھائی خود سات سمندر جا بسے ہیں لیکن وہ اپنے ساتھیوں اور پیاروں کو سمندر کی موجوں کے ذریعے پیغام نہیں بھیجتے، اس لئے کہ موجوں کا کیا اعتبار؟ وہ اکثر لندن سے ٹیلی فون پر خطاب کر کے حالِ دل بیان کر دیتے ہیں۔ انگریزی کا لفظ ”ٹیلی فون“ اب ہر زبان میں بلا تکلف استعمال ہوتا ہے۔
الطاف بھائی پردیس یعنی غیر یا بیگانے ملک میں رہتے ہیں، لیکن اب برطانیہ اُن کے لئے غیر یا بیگانہ ملک نہیں رہا۔ اُن کا اپنا مُلک بن گیا ہے۔ وہ وہاں کے قانونی طور پر شہری بن چکے ہیں۔ برطانوی انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کر سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو داراُلعوام یا کسی بھی سطح کے ادارے کا رکن بننے کے لئے خود بھی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ لیکن ابھی تک اُن کی ساری توجہ پاکستان پر مرکوز ہے۔
دراصل پاکستان سے محبت الطاف بھائی کی گھُٹّی میں پڑی ہے۔ جسمانی طور پر وہ برطانیہ میں ہیں لیکن روحانی طور پر پاکستان میں رہتے ہیں، یہ الگ بات کہ ایم کیو ایم کے لیڈروں، صدر زرداری، سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی اور رحمن ملک کے علاوہ کئی دوسرے سیاستدانوں کو جسمانی طور پر لندن جا کر اُن سے ملاقات کرنا پڑی ہے۔ پیاسوں کو کنویں کے پاس تو جانا ہی پڑتا ہے۔
وطن سے دُور رہ کر روحانی طور اور ”آلہ دُور گو“ کے ذریعے خطاب کرکے، پاکستان میں اپنی جماعت، قیادت اور کارکنوں کو متحد رکھنا اور ہر دور میں کامیاب سیاست کرنے کا کامیاب تجربہ الطاف بھائی سے پہلے کوئی بھی پاکستانی سیاستدان نہیں کر سکا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف بھی نہیں۔
الطاف بھائی‘ نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ پوری قوم کو اپنے ارشاداتِ عالیہ سے نوازتے رہتے ہیں۔ الطاف بھائی، میر عبدالباقی بلوچ کی طرح شاعر تو نہیں لیکن اہلِ وطن نے انہیں کئی بار نیوز چینلوں پر انٹرویو دیتے اور گفتگو میں گلوکاری کا تڑکا بھی لگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ الطاف بھائی اگرچہ ساز کے بغیر گاتے ہیں، لیکن اُن کی آواز میں سوز بہت ہے۔
ہمارے یہاں کئی سیاستدان شاعری کا شوق رکھتے تھے اور مخدوم امین فہیم سمیت چند نغز گو شاعر بھی ہیں، لیکن بظاہر گلوکاری کے شوقین نظر نہیں آتے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے آخری دور میں، عوامی نیشنل پارٹی کی لیڈر بیگم نسیم ولی خان نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ ”خان عبدالولی خان غزل بہت عُمدہ گاتے ہیں۔ اگلے روز ”نوائے وقت“ کے صفحہ اوّل پر خان صاحب کا ایک کارٹون شائع ہوا‘ جس میں انہیں ہارمونیم بجاتے اور غزل گاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
خان عبدالولی خان نے کسی سماجی تقریب یا عوامی جلسے میں غزل سرائی نہیں کی۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اپنے ذاتی دوستوں کو مدعو کرکے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے اور داد پاتے تھے۔ انہوں نے کئی بھارتی موسیقاروں‘ گلوکاروں‘ فلم ایکٹروں اور ایکٹرسوں کو ایوانِ صدر میں مہمان بنا کر ”امن کی آشا“ کا چراغ جلانے کی کوشش کی۔ جولائی 2001ءمیں آگرہ سربراہی کانفرنس کے موقع پر نئی دہلی کے پاکستان ہائی کمیشن میں مَیں نے دیکھا کہ صدر مشرف کے اعزاز میں جو تقریب سجائی گئی تھی، اُن میں زیادہ تر صدر پرویز مشرف کے ذوق کے لوگ تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی آل پاکستان مسلم لیگ کو بھی شوبزنس کے لوگوں سے سجانے کی کوشش کی لیکن ان میں ” بُڈّھی ٹھیری“ خواتین زیادہ تھیں۔
صدر جنرل (ر) ضیا ءالحق کو گانے بجانے والوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی، البتہ کئی نعت خوان اُن کی قُربت حاصل کرنے میں کامیاب ہو کر انعام یافتہ ہوئے۔ ایک بھارتی فلم ایکٹر شتروگن سِنہا دو تین بار آرمی ہاﺅس میں جنرل صاحب کے ذاتی مہمان رہے۔ شترو گن سِنہا نے جنرل ضیاءالحق کی صاحبزادی زین صاحبہ سے اپنی کلائی پر راکھی بھی بندھوائی تھی اور اِس طرح سے اُن دونوں میں بھائی بہن کا رشتہ قائم ہو گیا۔ جنرل صاحب کے دور میں کئی پاکستانی گلوکاروں نے بار بار بھارت جا کر نام اور پیسہ کمایا۔
صدر جنرل یحییٰ خان نے ایوانِ صدر محمد شاہ رنگیلے اور اودھ کے بادشاہ نواب واجد علی شاہ کی روحوں کو خوش کرنے کی بہت کوشش کی تھی۔ بھٹو صاحب کے دور کی پیپلز پارٹی کے کئی راہنماﺅں کو کلاسیکی موسیقی اور Pop Music دونوں سے لگاﺅ تھا۔ صدر جنرل یحییٰ خان کے آخری دور میں بھٹو صاحب کے نامزد کردہ جانشین ملک غلام مصطفےٰ کھر کو لاہور کے ” اُس بازار میں “گانا سُننے اور غل غپاڑہ کرنے کے الزام میں تھانہ ٹبّی لے جایا گیا۔ رکن صوبائی اسمبلی میاں افتخار احمد تاری ضمانت پر چھڑا لائے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو سویلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹر اور صدرِ پاکستان بن گئے اور انہوں نے کھر صاحب کو گورنر اور پنجاب کا مارشل لاءایڈمنسٹر مقرر کیا تو تھانہ ٹبّی کے ایس ایچ او نے اعلیٰ پولیس حکام کو رپورٹ بھجوائی کہ ”چونکہ ملزم غلام مصطفےٰ کھر گورنر پنجاب بن گیا ہے، لہذٰا مقدمہ داخل دفتر کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔“
(محی الدین احمد) مولانا ابوالکلام آزاد (1888ءسے 1958ء) عالمِ دین، سیاستدان اور انشا پرداز تھے۔ مہاتما گاندھی سے عقیدت کی وجہ سے مولانا آزاد کو کئی بار انڈین نیشنل کانگریس کا مرکزی صدر منتخب کروایا گیا۔ کانگریس کے حامی عُلماء(مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کے بزرگوں) نے مولانا آزاد کو ”امام الہند“ قرار دیا۔ مولانا کی کتاب ۔ ”غُبارِ خاطر“ اُن کے اُن خطوط کا مجموعہ ہے جو موصوف نے مختلف اوقات میں اور مختلف جگہوں سے ،نواب صفدر یار جنگ، مولانا حبیب الرحمن شروانی رئیس بھِیکم پُور ضلع علی گڑھ کو لِکھے تھے۔
خط نمبر 26، مولانا آزاد نے 18ستمبر 1943 ءکو اپنی نظر بندی کے دوران قلعہ احمد نگر سے لِکھا تھا۔لِکھتے ہیں۔۔ ”اس مسِیتا خان کا حال بھی قابلِ ذکر ہے۔ سونی پت ضلع انبالہ کا رہنے والا تھا اور پیشے کا خاندانی گویّا تھا۔ گانے کے فن میں اچھی استعداد بہم پہنچائی تھی، کلکتہ میں طوائفوں کی معلمی کِیا کرتا تھا۔۔۔ والد صاحب نے اُسے مرید کر لیا۔ مجھے ایک راز دار مِل گیا۔ میں اُس کے گھر جاتا ۔ مسِیتاخان وہاں پہلے سے موجود ہوتا۔ موسیقی کے آلات پر زیادہ توجہ سِتار پر ہوئی اور بہت جلد اُس سے انگلیاں آشنا ہو گئیں۔ جِس کوچے میں بھی قدم اُٹھایااُسے پوری طرح چھان کر چھوڑا۔ ثواب کے کام کئے تو وہ بھی پوری طرح کئے، گناہ کے کام کئے تو انہیں بھی ادھورا نہ چھوڑا۔ رِندی کا کُوچہ مِلا تھا۔ تو اُس میں سب سے آگے رہتے ہیں۔ پارسائی کی راہ لی، تو اُس میں بھی کِسی سے پیچھے نہ رہے۔ سِتار کی مشق چار پانچ سال تک جاری رہی تھی۔بِین سے بھی انگلیاں نا آشنا نہیں رہیں“۔ مولانا آزاد کے بیان سے ثابت ہوا کہ موسیقار یا گلوکار ہونا کوئی غلط کام نہیں۔