جنوبی ایشیا کی مسلم آبادی کی آنکھوں کا تارا اور اُن کے مقدر کا ستارا، پاکستان کے نامزد گورنر جنرل کی حیثیت سے کراچی ائرپورٹ پر اُترا تو یہ 1947ءکے آٹھویں مہینے کا ساتواں دن تھا، جمعرات 7 اگست، جمعرات 14 اگست اور جمعرات 25 دسمبر 1947ءہمارے قائداعظمؒ کی زندگی کے تین اہم دن بخیر و عافیت گزر گئے! چاند کے ساتھ ستارے کی طرح مادرِ ملت محترمہ فاطمہؒ جناح ہر قدم، اُن کی ہم قدم تھیں! اور پاکستانی خواتین کے لئے ہر میدانِ عمل میں سربلند رہنے کی پیامبر تھیں!
14 اگست 1947ءسے 14 اگست 1948ءتک قائداعظمؒ نجی شعبے میں ’صنعتی یونٹوں‘ کے پے در پے افتتاح کئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہر ’صنعتی یونٹ‘ سرکار کے لئے ’ٹیکس‘ اور عوام کے لئے ’اشیائ‘ اور بے روزگاروں کے لئے ’روزگار‘ لاتا ہے! حتٰی کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی عمارت کا افتتاح بھی اُنہوں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے طے شدہ وقت پر کر دکھایا اور پیچھے رہ جانے والے ایک دوسرے کا مُنہ دیکھتے رہ گئے!
درجات میں اضافہ ہو تو مشکلات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے! افراد ہوں؟ یا، اقوام؟ اپنے درجات میں اضافے اور راستے کی مشکلات سے نبردآزمائی میں مصروف ہیں! لیکن ہر فرد اور ہر قوم کے سامنے موجود ’مشکلات‘ کا رنگ رُوپ بتاتا ہے کہ وہ فرد یا، وہ قوم اب تک ان سے کس انداز میں بنتی رہی! اور یہ لوگ ان سے پہلی مشکلات سے کیونکر عہدہ برا ہوتے رہے؟
قائداعظمؒ کے رخصت ہوتے ہی ہر ’کورنس گو‘ کے دونوں ہاتھ سونے کے ہو گئے! مٹی کے بازوﺅں پر سونے کے ’ہاتھ‘ لگے دیکھ کر نہ تو کسی کو تعجب ہوا اور نہ کسی نے اُنہیں جھاڑ لے جانے کی کوئی کوشش کی حتٰی کہ ان لوگوں کے ہاتھ کاندھوں تک سونے کے ہو گئے لیکن مٹی کا بدن، مٹی کے ساتھ مٹی ہو گیا! سونا ’آل اولاد‘ لے اُڑی مگر اُن کے کالے کرتوتوں کی تختی اُن کے ساتھ دفنانا بھول گئی، لہٰذا وہی ’لوحِ مزار‘ قرار پا گئی! مادرِ ملتؒ کی جعلی انتخابی شکست سے آغاز پانے والا کام انتخابات کے نتائج نہ تسلیم کرنے پر منتج ہوا اور یہ ’نتائج‘ بھی ’لوحِ مزار‘ ہو گئے مگر ’آل اولاد‘ سر سے پیر تک سونا ہو گئی! مگر سونا ہو کر بھی ’پیتل‘ ہونے کے احساس سے چھٹکارا نہ پا سکی، لہٰذا کبھی ’ضیا‘ اور کبھی ’مشرف‘ سے فیض یاب ہوتی رہی اور ان کی کاسہ لیسی کے عوض سونے کے ڈھیر میں اضافے کے لئے آج بھی ’سر دَر کف‘ ہے اب ضیاءکی آل اولاد کا معاملہ دیکھ لیں، غریب بھائی کھربوں روپے میں کھیل رہے ہیں اور امیر بھائی کھربوں ڈالروں میں تل رہا ہے! کچھ اور بھی ہیں مگر وہ پاکستان مسلم لیگ نون کے ہم خیال ہیں، لہٰذا ہم اُنہیں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے! اور تو اور اب ہمیں جناب سلیم سیف اللہ اور جناب حمزہ شریف میں بھی کچھ خاص فرق محسوس نہیں ہو پا رہا! ہمیں یقین ہے کہ چودھری پرویز الٰہی بھی پارٹی کے اندر اُسی شورش کا شکار ہوں گے؟ جس نوع کی ’شورش‘ سے جناب زرداری ایوانِ صدر میں ہدف بنے بیٹھے ہیں!
ہم نہ اپنے درجات سے واقف ہیں، نہ بھارت کی پیدا کردہ مشکلات کا ادراک رکھتے ہیں، ہم سب قائداعظمؒ کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر قائداعظمؒ سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے! ہم قائد کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ صرف سیاست کر رہے ہیں؟ کیونکہ وقت نے ہمارے سر کے بال تو چاندی کر دئیے ہیں مگر وہ جو کچھ سر کے اندر ہوتا ہے، وقت اُسے ’سونا‘ نہیں کر پایا! لہٰذا ہم سونے کے دو دو ہاتھ لئے لمحہ لمحہ سونے پر سونے کے ڈھیر لگانے میں مگن ہیں! کیونکہ ہماری توقعات کا مرکز جناب شیرافگن ہیں ان کا فرمان ہے کہ اگر اُنہیں فنڈز ملے تو وہ پوری ’دیانت داری کے ساتھ تقسیم کر کے کھائیں گے!‘ جناب مشرف کے نام پر فنڈز کب ریلیز ہوں گے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے اور بہت بڑے جواب کا متقاضی ہے! کیا ہم قائداعظمؒ کے چاہنے والے کہلا سکتے ہیں؟ کیا ہم قائداعظم کے جاننے والے کہلا سکتے ہیں؟ اگر یہ سوال ہمارے سیاست دانوں کے بارے میں ہے؟ یہ اس کا صرف ایک جواب ہے! ہرگز نہیں یہ لوگ صرف سیاست گر ہیں اور بس!
14 اگست 1947ءسے 14 اگست 1948ءتک قائداعظمؒ نجی شعبے میں ’صنعتی یونٹوں‘ کے پے در پے افتتاح کئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہر ’صنعتی یونٹ‘ سرکار کے لئے ’ٹیکس‘ اور عوام کے لئے ’اشیائ‘ اور بے روزگاروں کے لئے ’روزگار‘ لاتا ہے! حتٰی کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی عمارت کا افتتاح بھی اُنہوں نے اپنے مبارک ہاتھوں سے طے شدہ وقت پر کر دکھایا اور پیچھے رہ جانے والے ایک دوسرے کا مُنہ دیکھتے رہ گئے!
درجات میں اضافہ ہو تو مشکلات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے! افراد ہوں؟ یا، اقوام؟ اپنے درجات میں اضافے اور راستے کی مشکلات سے نبردآزمائی میں مصروف ہیں! لیکن ہر فرد اور ہر قوم کے سامنے موجود ’مشکلات‘ کا رنگ رُوپ بتاتا ہے کہ وہ فرد یا، وہ قوم اب تک ان سے کس انداز میں بنتی رہی! اور یہ لوگ ان سے پہلی مشکلات سے کیونکر عہدہ برا ہوتے رہے؟
قائداعظمؒ کے رخصت ہوتے ہی ہر ’کورنس گو‘ کے دونوں ہاتھ سونے کے ہو گئے! مٹی کے بازوﺅں پر سونے کے ’ہاتھ‘ لگے دیکھ کر نہ تو کسی کو تعجب ہوا اور نہ کسی نے اُنہیں جھاڑ لے جانے کی کوئی کوشش کی حتٰی کہ ان لوگوں کے ہاتھ کاندھوں تک سونے کے ہو گئے لیکن مٹی کا بدن، مٹی کے ساتھ مٹی ہو گیا! سونا ’آل اولاد‘ لے اُڑی مگر اُن کے کالے کرتوتوں کی تختی اُن کے ساتھ دفنانا بھول گئی، لہٰذا وہی ’لوحِ مزار‘ قرار پا گئی! مادرِ ملتؒ کی جعلی انتخابی شکست سے آغاز پانے والا کام انتخابات کے نتائج نہ تسلیم کرنے پر منتج ہوا اور یہ ’نتائج‘ بھی ’لوحِ مزار‘ ہو گئے مگر ’آل اولاد‘ سر سے پیر تک سونا ہو گئی! مگر سونا ہو کر بھی ’پیتل‘ ہونے کے احساس سے چھٹکارا نہ پا سکی، لہٰذا کبھی ’ضیا‘ اور کبھی ’مشرف‘ سے فیض یاب ہوتی رہی اور ان کی کاسہ لیسی کے عوض سونے کے ڈھیر میں اضافے کے لئے آج بھی ’سر دَر کف‘ ہے اب ضیاءکی آل اولاد کا معاملہ دیکھ لیں، غریب بھائی کھربوں روپے میں کھیل رہے ہیں اور امیر بھائی کھربوں ڈالروں میں تل رہا ہے! کچھ اور بھی ہیں مگر وہ پاکستان مسلم لیگ نون کے ہم خیال ہیں، لہٰذا ہم اُنہیں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ہے! اور تو اور اب ہمیں جناب سلیم سیف اللہ اور جناب حمزہ شریف میں بھی کچھ خاص فرق محسوس نہیں ہو پا رہا! ہمیں یقین ہے کہ چودھری پرویز الٰہی بھی پارٹی کے اندر اُسی شورش کا شکار ہوں گے؟ جس نوع کی ’شورش‘ سے جناب زرداری ایوانِ صدر میں ہدف بنے بیٹھے ہیں!
ہم نہ اپنے درجات سے واقف ہیں، نہ بھارت کی پیدا کردہ مشکلات کا ادراک رکھتے ہیں، ہم سب قائداعظمؒ کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر قائداعظمؒ سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے! ہم قائد کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ صرف سیاست کر رہے ہیں؟ کیونکہ وقت نے ہمارے سر کے بال تو چاندی کر دئیے ہیں مگر وہ جو کچھ سر کے اندر ہوتا ہے، وقت اُسے ’سونا‘ نہیں کر پایا! لہٰذا ہم سونے کے دو دو ہاتھ لئے لمحہ لمحہ سونے پر سونے کے ڈھیر لگانے میں مگن ہیں! کیونکہ ہماری توقعات کا مرکز جناب شیرافگن ہیں ان کا فرمان ہے کہ اگر اُنہیں فنڈز ملے تو وہ پوری ’دیانت داری کے ساتھ تقسیم کر کے کھائیں گے!‘ جناب مشرف کے نام پر فنڈز کب ریلیز ہوں گے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے اور بہت بڑے جواب کا متقاضی ہے! کیا ہم قائداعظمؒ کے چاہنے والے کہلا سکتے ہیں؟ کیا ہم قائداعظم کے جاننے والے کہلا سکتے ہیں؟ اگر یہ سوال ہمارے سیاست دانوں کے بارے میں ہے؟ یہ اس کا صرف ایک جواب ہے! ہرگز نہیں یہ لوگ صرف سیاست گر ہیں اور بس!