لندن (تجزیہ خالد ایچ لودھی) پاکستان کو وجود میں آئے 64 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے سرزمین پاکستان کو حاصل کرکے مسلمانوں کو ایک آزاد، خودمختار، اسلامی اور فلاحی مملکت کے قیام کا تصور پیش کیا تھا۔ اس عظیم دھرتی کے ساتھ آج تک کسی بھی حکمران اور سیاستدان نے آزاد، خودمختار اور اسلامی و فلاحی مملکت بنانے میں سنجیدگی سے اپنا عملی کردار ادا نہیں کیا۔ 64 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ اس عظیم سرزمین پاکستان کے ساتھ ہر آنیوالے حکمران اور فوجی آمروں نے دل کھول کر سیاسی کھلواڑ کیااور قوم کو خوب بیوقوف بنایا۔ بار بار کے مارشل لاءادوار اس ملک میں بے شمار سیاستدانوں کو جنم دینے کا موجب بنے اور فوجی نرسیوں میں پرورش پانیوالے حکمران ارض پاکستان کی تقدیر کے فیصلے کرنیوالے بن کر پاکستان کے محافظ بن گئے اور پورے ملک میں خاندانی اجارہ داری اور وی آئی پی کلچر کو فروغ ملا جس کی بناءپر اب مخصوص خاندان پورے ملک پر قابض ہیں جو موروثی اور جاگیردارانہ طرز زندگی کو فوقیت دیتے ہیں۔ آج کہیں بلاول زرداری ”بھٹو“ بن کر، مونس الٰہی وی آئی پی قیدی بن کر، گیلانی صاحبزادگان وزیراعظم کے صاحبزادے بن کر اور حمزہ شہباز میاں برادران کے چشم و چراغ بن کر مستقبل کے قومی محافظ بننے کیلئے اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ قیام پاکستان کا مقصد اسلامی معاشرہ اور عوام کا حقیقی راج قائم کرنا تھا لیکن آج پورا ملک چند مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری کا شکار ہے۔ اِکا دُکا نچلی سطح سے عوامی نمائندہ ایوان اقتدار تک آبھی جاتا ہے تو پھر یا تو مختار رانا کی شکل میں جلاوطن ہو کر گمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ پارلیمنٹ میں گنے چنے نچلی سطح کے عوامی نمائندے اگر ہیں بھی تو وہ محض ربڑ سٹیمپ کے طور پر سیاسی پارٹیوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کی تازہ مثال موجود ہے۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ، خان لیاقت علی خان شہید، ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے علاوہ ملک میں کوئی ملک گیر مقبول لیڈر پیدا نہیں ہورہا۔ کیا پاکستان رحمن ملک، بابر اعوان اور حسین حقانی جیسے لوگوں کو قومی اعزازات سے نوازنے کیلئے بنا تھا؟ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ عوام پر مسلط ہو کر امریکی ایجنڈا پاکستان پر لاگو کروا رہے ہیں۔ کیا پاکستان اس بناءپر وجود میں آیا تھا کہ حکمران ملکی سرمایہ لوٹ کر بیرون ملک لے جائیں؟ کیا پاکستان اس لئے وجود میں آیا تھا کہ آزادی کشمیر کیلئے لڑی جانیوالی جنگ آزادی کو دہشت گردی کا نام دیکر امریکہ کی ہر ڈکٹیشن پر حکمران گھٹنے ٹیک دیں اور اپنا اقتدار طویل کرتے چلے جائیں۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کو انکے اپنے گھروں میں نظربند کردیا جائے اور حکومتی سطح پر عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کو تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کا جواب قوم کو نہ صرف دینا چاہئے بلکہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی لاتے ہوئے حکمرانوں کے انتخاب میں موروثی اور جاگیرداری کے شکنجے سے باہر نکل کر اپنا قومی کردار ادا کرتے ہوئے نچلی سطح سے قیادت کو ابھارنا چاہئے اور پاکستان میں نہ کوئی پنجابی، پٹھان، بلوچی، سندھی اور مہاجر ہو، سب کی پہچان صرف اور صرف بطور پاکستانی ہو۔ آئین پاکستانی کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور پھر عوامی راج اس دھرتی پر قائم ہو۔ قومی خزانے میں خیانت اور ملک میں لوٹ مار کے کلچر اور مافیاز کا خاتمہ ہو۔ بھارت کے ساتھ کشمیر کی آزادی کی بات ہو لیکن امن کی آشا کے روپ میں پاکستان میں بھارتی کلچر کو فروغ نہ دیا جائے۔ برابری کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ امن قائم ہو اور پھر بھارت کی پاکستان کو بنجر بنانے کی خوفناک سازش کو بھی ناکام بنایا جانا چاہئے۔
خالد ایچ لودھی
خالد ایچ لودھی