پاکستان نعمت خداوندی ہے حضور پاک محمدﷺ کا تحفہ ہے۔ پاکستان کا معرض ظہور میں آنا کسی معجزے سے کم نہیں۔ تحریک پاکستان کی تاریخ پر ان گنت کتب چھپ چکی ہیں۔ حضرت قائداعظمؒ کی سیرت و کردار اور ان کے کارہائے نمایاں پر بیشمار تخلیقات موجود ہیں۔
پاکستان کی تخلیق میں ہر فرد خواہ وہ مزدور تھا یا افسر، کارخانہ دار تھا یا ملازم، قلی تھا یا ریلوے کا افسر، استاد تھا یا شاگرد، وکیل تھا یا جج، زمیندار تھا یا مزارع، سبھی کا ایک ہی قائد تھا۔ وہ تھے حضرت قائداعظمؒ!! ان کی ایک ہی سیاسی اور قومی جماعت تھی اور وہ تھی مسلم لیگ۔ ان کا ایک ہی نظریہ تھا اور وہ تھا نظریہ اسلام! ان کا ایک ہی نعرہ تھا اور وہ تھا ”لے کے رہیں گے پاکستان“۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا پاکستان کا حصول۔ ان کا ایک ہی عقیدہ اور ایقان تھا اور وہ تھا لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ، مگر صد حیف کہ قیام پاکستان کے بعد نہ قائد ایک رہا، نہ سیاسی جماعت ایک رہی، نظریہ ایک رہا نعرہ ایک رہا نہ مقصد ایک رہا نہ عقیدہ ایک رہا۔ بیشمار جماعتیں، ان گنت عقیدے، لاتعداد مقاصد، بیحد نعرے، لامتناہی نظریات و تصورات، بھانت بھانت کی بولیاں، زبانیں الگ ہو گئیں، صوبائی نسبتیں الگ، علاقائی تعلقات الگ، ثقافتیں الگ، مختلف تہذیبیں، اذکار و افکار کے مراکز اور سرچشمے مختلف!! وحدت ملی کا وہ شیرازہ بکھرا کہ الامان و الحفیظ! اسی لئے ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اب پاکستان کا وجود میں رہنا ایک معجزہ ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت قائداعظمؒ اور حضرت علامہ اقبالؒ دونوں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے تھے ان میں ایسے اعلیٰ اوصاف موجود تھے کہ ان کے قول و فعل پر ذرا برابر شک نہیں ہو سکتا۔ پاکستان انشاءاللہ قائم رہے گا۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے تو 30 دسمبر 1930ءکے خطبہ آلہ آباد میں فرما دیا تھا کہ اسلامیان ہند کا آزادی و خودمختاری والا علاقہ کون کون سا ہوگا۔ ہمارا ان ہستیوں کے ارشادات پر ایمان چونکہ حق الیقین کی حد تک ہے، ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان قائم و دائم رہے گا، پاکستان سے بدظن یا مایوس نہیں ہیں۔بدظن ہیں تو اپنے ”مخلص“ اور ”ایماندار“ قائدین کرام سے، مایوس ہیں تو حضرت قائداعظمؒ کے سیاسی پیروکاروں سے، دلبرداشتہ ہیں تو نام نہاد علمائے کرام سے، دل شکستہ ہیں تو اپنے قومی اور ملی زعمائے کرام سے!! قیام پاکستان سے پہلے مقاصد و مفادات عالیشان تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد مقاصد اللہ کو پیارے ہو گئے اور مفادات، قیام پاکستان کا بنیادی فلسفہ بن گئے۔ موجودہ حالات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ کراچی کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ وہاں کون کیا کر رہا ہے، کون کس کی گردن اڑا رہا ہے، خودکش حملوں سے ارض پاکستان لرز رہا ہے اور ہم غیروں کی جنگ آپس میں لڑ کر خود اپنے آپ کو مٹا رہے ہیں۔
ہندو و یہود و نصاریٰ مشرقی پاکستان کے احوال کو پھر سے دہرانا چاہتے ہیں، کون صوبہ سندھ کی علیحدگی کا ادھار کھائے بیٹھا ہے، کشمیر کاز کو کون نقصان پہنچا رہا ہے، قومی ثقافت و شعور ملی اور غیرت و حمیت کو کون آگ لگا رہا ہے، تجارت و صنعت کا کون پنڑا کر رہا ہے؟ ملکی خزانے اور معیشت کو کون تباہ و برباد کر رہا ہے؟ ملکی، سیاسی، قومی، تجارتی، صنعتی اور دفتری نظم و نسق کا جنازہ کون نکال رہا ہے؟ پاکستان جو اربوں جانوں سے بھی عزیز ہے اسے کون کس جہنم میں دھکیل رہا ہے؟ چین، کوریا، تائیوان، انڈونیشیا، ملائشیا اور افریقہ کے مسلم ممالک جو پاکستان کے قیام کے بعد معرض وجود میں آئے ان میں اکثر آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہیں اور پاکستان کی 50 فیصد آبادی فقط ایک وقت کی روٹی پر اکتفا کئے ہوئے ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
بہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ
پاکستان کی تخلیق میں ہر فرد خواہ وہ مزدور تھا یا افسر، کارخانہ دار تھا یا ملازم، قلی تھا یا ریلوے کا افسر، استاد تھا یا شاگرد، وکیل تھا یا جج، زمیندار تھا یا مزارع، سبھی کا ایک ہی قائد تھا۔ وہ تھے حضرت قائداعظمؒ!! ان کی ایک ہی سیاسی اور قومی جماعت تھی اور وہ تھی مسلم لیگ۔ ان کا ایک ہی نظریہ تھا اور وہ تھا نظریہ اسلام! ان کا ایک ہی نعرہ تھا اور وہ تھا ”لے کے رہیں گے پاکستان“۔ ان کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا پاکستان کا حصول۔ ان کا ایک ہی عقیدہ اور ایقان تھا اور وہ تھا لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ، مگر صد حیف کہ قیام پاکستان کے بعد نہ قائد ایک رہا، نہ سیاسی جماعت ایک رہی، نظریہ ایک رہا نعرہ ایک رہا نہ مقصد ایک رہا نہ عقیدہ ایک رہا۔ بیشمار جماعتیں، ان گنت عقیدے، لاتعداد مقاصد، بیحد نعرے، لامتناہی نظریات و تصورات، بھانت بھانت کی بولیاں، زبانیں الگ ہو گئیں، صوبائی نسبتیں الگ، علاقائی تعلقات الگ، ثقافتیں الگ، مختلف تہذیبیں، اذکار و افکار کے مراکز اور سرچشمے مختلف!! وحدت ملی کا وہ شیرازہ بکھرا کہ الامان و الحفیظ! اسی لئے ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اب پاکستان کا وجود میں رہنا ایک معجزہ ہے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت قائداعظمؒ اور حضرت علامہ اقبالؒ دونوں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے تھے ان میں ایسے اعلیٰ اوصاف موجود تھے کہ ان کے قول و فعل پر ذرا برابر شک نہیں ہو سکتا۔ پاکستان انشاءاللہ قائم رہے گا۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے تو 30 دسمبر 1930ءکے خطبہ آلہ آباد میں فرما دیا تھا کہ اسلامیان ہند کا آزادی و خودمختاری والا علاقہ کون کون سا ہوگا۔ ہمارا ان ہستیوں کے ارشادات پر ایمان چونکہ حق الیقین کی حد تک ہے، ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان قائم و دائم رہے گا، پاکستان سے بدظن یا مایوس نہیں ہیں۔بدظن ہیں تو اپنے ”مخلص“ اور ”ایماندار“ قائدین کرام سے، مایوس ہیں تو حضرت قائداعظمؒ کے سیاسی پیروکاروں سے، دلبرداشتہ ہیں تو نام نہاد علمائے کرام سے، دل شکستہ ہیں تو اپنے قومی اور ملی زعمائے کرام سے!! قیام پاکستان سے پہلے مقاصد و مفادات عالیشان تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد مقاصد اللہ کو پیارے ہو گئے اور مفادات، قیام پاکستان کا بنیادی فلسفہ بن گئے۔ موجودہ حالات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ کراچی کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ وہاں کون کیا کر رہا ہے، کون کس کی گردن اڑا رہا ہے، خودکش حملوں سے ارض پاکستان لرز رہا ہے اور ہم غیروں کی جنگ آپس میں لڑ کر خود اپنے آپ کو مٹا رہے ہیں۔
ہندو و یہود و نصاریٰ مشرقی پاکستان کے احوال کو پھر سے دہرانا چاہتے ہیں، کون صوبہ سندھ کی علیحدگی کا ادھار کھائے بیٹھا ہے، کشمیر کاز کو کون نقصان پہنچا رہا ہے، قومی ثقافت و شعور ملی اور غیرت و حمیت کو کون آگ لگا رہا ہے، تجارت و صنعت کا کون پنڑا کر رہا ہے؟ ملکی خزانے اور معیشت کو کون تباہ و برباد کر رہا ہے؟ ملکی، سیاسی، قومی، تجارتی، صنعتی اور دفتری نظم و نسق کا جنازہ کون نکال رہا ہے؟ پاکستان جو اربوں جانوں سے بھی عزیز ہے اسے کون کس جہنم میں دھکیل رہا ہے؟ چین، کوریا، تائیوان، انڈونیشیا، ملائشیا اور افریقہ کے مسلم ممالک جو پاکستان کے قیام کے بعد معرض وجود میں آئے ان میں اکثر آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہیں اور پاکستان کی 50 فیصد آبادی فقط ایک وقت کی روٹی پر اکتفا کئے ہوئے ہے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں
بہ گنبد افلاک، یہ خاموش فضائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ