رومن فلسفی بادشاہ اور (Meditations) کے مصنف مارکس اریلیس نے کہا تھا کہ ’’ اس بات کا ہمیشہ مشاہدہ کرنا چاہئے کہ ہر چیز کسی تبدیلی کا نتیجہ ہے، قدرت اشیاء کی موجودہ شکل بدلتے رہنے اور انہیں نیا جامہ پہنانے سے ہی محبت کرتی ہے‘‘
کیا علامہ اقبال کیا مارکس، سب بڑے دانشور ’’ثبات ایک تغیر کو ہے‘‘ کی صدائیں بلند کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سرپٹ بھاگتی دنیا کے منہ زور گھوڑے کو تھوڑی دیر کیلئے ’’سوچ کی لگام‘‘ ڈالیں اور غور کریں۔ آپ خود محسوس کر لیں گے کہ جو مناظر کچھ برس قبل آنکھوں کے سامنے رقص کرتے تھے کب کے معدوم ہو چکے ہیں جنہیں اب ’’کوئی چراغ رخ زیبا لیکر ڈھونڈنا ‘‘ بھی ممکن نہیں رہا اور ان کی جگہ بہت سے ایسے نظارے لے چکے ہیں جن کا کچھ عرصہ قبل تصور بھی محال تھا۔
واقعی دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور اسے ’’گلوبل ویلج‘‘ کہا جا رہا ہے۔ یہ عالم رنگ و بو ’’عالمی گاؤں ‘‘ تو کئی بار بنا اور مٹا ہے۔ دانشور جیفری ڈی ساکس نے قدیم دنیا سے لیکر اب تک گلوبلائزیشن کے آٹھ نو درجے گنوائے ہیں (The ages of Globalization ) اصل بات یہ ہے کہ یہ عالم آب و گْل بذریعہ ٹیکنالوجی پہلی مرتبہ جڑا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اس باہم جڑے ’’قدرت کے کارخانے میں‘‘ ہم کوئی الگ تھلگ جزیرہ نہیں ہیں اور اس تبدیلی سے اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں جس طرح کسی دور دراز افریقی ملک کے باشندے ہو رہے ہیں ایک ایسی دنیا میں جہاں غلط یا صحیح انفارمیشن روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کر رہی ہے۔ اور بڑے پیمانے پر کوانٹم کمپیوٹرز ایجاد کے مراحل سے گزر رہے ہیں جو کئی اہم رازوں سے پردے اتار پھینکیں گے۔ سوچنا چاہئے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کھڑے رہ پائے بھی ہیں یا نہیں۔
ہر جگہ ’’ثبات ایک تغیر‘‘ کو محسوس ہو رہا ہے۔ امریکی صحافی فرید ذکریا کی تحقیق(The age of revolutions) پر جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ فضاؤں میں کہیں موجود مرزا غالب مسکراتے ہوئے ’’شب و رْوز تماشے‘‘ کی نشاندہی کر رہے ہیں لیکن وہ بھی حیران ہیں کہ اس کے نتیجہ میں دنیا بازیچہ اطفال بننے کی بجائے ایک انتہائی سنجیدہ مقام بنتی جا رہی ہے، ایک ایسا ’’نیلام گھر‘‘ جہاں پْھونک پْھونک کر قدم رکھنا ہوگا کیونکہ غلطی کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔
یہ وہ حالات ہیں جن کا سامنا کرتے ہوئے ہر جگہ ریاست کے کئی روایتی تصورات اور طفل تسلیوں کی سیاست دم توڑ رہی ہے۔ کمیونزم، سوشل ازم، نیولبرل ازم اور لبرل ڈیموکریسی کی عمارتیں تک شدید زلزلوں کی لپیٹ میں ہیں۔ کئی بْت زمین بوس ہو چکے اور کئی ہونے کو ہیں۔
جب مغرب میں ریاست کے جدید تصورات سرمایہ داری کا ’’مہلک مرض‘‘ بنتے جا رہے ہیں اور سوشلسٹ انقلابات بھی گھٹن کا شکار ہیں وہاں ایک ایسی مملکت کا تصور کیسے رواج پا سکتا ہے جہاں روز ’’منگو تانگے والوں کو نو آبادیاتی طرز حکومت کے نشتر برداشت کرنا پڑیں اور روز سیکھنا پڑے کہ ’’نئے قانون‘ جیسے عنوانوں کے پیچھے نہ بھاگیں۔ قانون کا جبر اور ظلم کے ضابطے وہی پرانے ہیں۔
فرعون کے ایک وزیر پتاح ہوتپ کی لکھی کتاب کو دنیا کی سب سے قدیم کتاب مانا جاتا ہے جس میں وہ ’’بڑی دانشمندی‘‘ سے رقمطراز ہیں کہ ’’بڑے آدمی کے سامنے مت بولو۔ ہاں مگر اتنا جتنا وہ تمہیں موقع دے۔ اس سے فلاح پاؤ گے‘‘
پتاح ہوتپ آج کے دور میں ہوتے تو انہیں معلوم پڑتا کہ وہ اپنی دانش سمیت بہت پرانے ہو چکے ہیں۔ ’’ظاہری ہی سہی لیکن برابری کی اس دنیا میں کیا چھوٹا کیا بڑا، سب کو بولنے کا ، اپنے خیالات کے اظہار کا برابر موقع چاہئے۔ آزادء اظہارِ رائے دو وقت کی روٹی کی طرح اہم ہو چکی ہے۔ ”What is Free Speech“ کے مصنف فرح دبوئی والا لکھتے ہیں کہ ’’پرانے زمانے میں آزادء اظہار رائے کو معاشرے کیلئے برا سمجھا جاتا تھا لیکن مغربی طرز جمہوریت کے فروغ کے ساتھ ہی تین صدیوں کے دوران اس کی اہمیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اب اسکے تقاضے کو آزادی کا بنیادی تصور سمجھا جاتا ہے۔
ملک کو ہارڈ سٹیٹ بنانے کیلئے آزادیِ اظہارِ رائے اور پل پل بدلتے لمحات کا دانش سے مشاہدہ کرنا ہوگا اور اس کے فوائد کے ساتھ خطرات پر بھی نظر رکھنا ہوگی۔ مشہور آسٹرین فلسفی کارل پوپر کی بات پر بھی دھیان دینا ہوگا کہ اگر جرمنی کی ’’وائمر ریپبلک ‘‘ مادر پدر آزادء اظہار کی اجازت نہ دیتی تو ہٹلر کبھی جنم نہ لیتا۔
اسی طرح دو مصنفین مورٹن اور مورسن کی شاندار تخلیق ”The minds wide shut“پر بھی ایک نظر ڈال لیں جس کے ابتدائیہ میں امریکی اخبار ’’وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کا ذکر ہے اور جو فیس بک کی ٹیم کی طرف سے اپنے ایگزیکٹوز کو بھیجی گئی ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’فیس بک دنیا بھر میں لوگوں کو متحد کرنے کی بجائے تقسیم کرتی چلی جا رہی ہے اور اس کے ذریعے ایک مستحکم گلوبل معاشرہ نہیں بلکہ ایک منقسم سوسائٹی وجود میں آتی جا رہی ہے۔" گویا اس رپورٹ کے تناظر میں ہم فیس بک اور دوسری سوشل میڈیا ایپس کو ’’نئی بنیاد پرستی‘‘ کا نام دے سکتے ہیں جس کا ’’ماٹو‘‘ ہے کہ جدیدیت کے نام پر ایک دوسرے میں نفرت بھر دو، اور اس نفرت کے سہارے تقسیم ہو کر زندہ رہنے کی مشکل کوشش کرو۔
ایک عالمی دانشور ’’جیک میچنگامہ‘‘ ہیں جو آزادء اظہار کو آزادیوں اور جمہوریت کا بنیادی پتھر تسلیم کرتے ہیں ان کی کتاب کا نام بھی ’’Free Speech‘‘ ہی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ آزادیوں اور جمہوریتوں کا تصور آزادء اظہار کے بغیر نامکمل ہے۔
ان دو طرح کی آراء کی موجودگی میں ہم جیسے تیسری دنیا کے ملکوں کو جہاں معلومات کے فقدان کی وجہ سے ہر طر ح کے ’’جھوٹ سچ‘‘ کے ذریعے تقسیم کو یقینی بنانا بہت آسان ہے انتہائی احتیاط والا راستہ اپنانا ہو گا جہاں اظہار رائے کی مادر پدر آزادی کا سدباب کرنا ہوگا وہاں عوام پر حقیقی معلومات کے کئی بند دروازوں کو دانش کے قفل سے کھولنا ہوگا۔ معلومات کی فراہمی کا عمل ایک مسلسل اور انتھک ذریعے سے آگے بڑھانا ہوگا اور اسے بااعتماد بھی بنانا ہوگا تاکہ عوام سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکیں اور سچی اظہار رائے کی منزل پا سکیں۔ اس مقصد کیلئے اعزازات اور انعامات کی ریوڑیاں بار بار اپنے مداح سراؤں میں بانٹنے کی بجائے حقیقی دانشوروں کا ایک تھنک ٹینک بنانا ہوگا جو قابل عمل تجاویز کے ساتھ بھرپور طریقے سے سامنے آئے۔
اس تقسیم کے ساتھ کئی دوسرے تصورات بھی حقیقت بنتے جا رہے ہیں جن میں”Origins of Victory“ کے مصنف اینڈریو کے مطابق ”Disruptive millitary innovation“ سب سے اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’اپنے دشمن‘‘ کو ختم یا کمزور کرنے کیلئے اب آپ کو بڑے بڑے میزائلوں، ایٹم بموں یا توپ ٹینکوں کی ضرورت نہیں۔ آئندہ جنگیں بہت سستی ہونے جا رہی ہیں اور محض ایک کمپیوٹر کی مہارت سے آپ حریف کو میدان میں دھول چٹوا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے فیک نیوز اور ہائیبرڈ واربھی اس کا حصہ ہے۔
ایمازیگریٹ کی ریسرچ”Spies lies and Algorithms“ کا اس کالم میں بھی ذکر بہت ضروری ہے جس میں وہ بتاتی ہیں کہ فیس بک وغیرہ کے ذریعے لوگوں کی سوچ پر قبضہ کیا جاتا ہے اور وہ سوچنے لگتے ہیں کہ بعض معاملات پر رائے ان کی اپنی سوچ کا نتیجہ ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ عرب سپرنگ کے نام سے مڈل ایسٹ اور افریقہ کے ملکوں میں سیاسی اور ریاستی ’’اتھل پتھل‘‘ سوشل میڈیا ایپس ہی کا نتیجہ ہے‘‘ اور بہت سے انقلابات بڑی طاقتوں نے اپنے مفادات میں برپا کئے تھے‘‘۔
یہ چند جھلکیاں ہیں جن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہم ایک ایسی ’’خطرناک دنیا‘‘ میں جی رہے ہیں جو روایتی اقدامات سے کہیں پرے آباد ہو چکی ہے اور یہاں روایتی طور طریقے چھوڑ کر ہمیں بھی جینے اور ہارڈ ریاست بننے کیلئے جدید انداز سیکھنا ہوں گے۔
راحت اندوری نے مشکلات اور پیچیدگیوں سے بھر پور دنیا کیلئے کیا خوب کہا ہے:
اپنی تعبیر کے چکر میں مرا جاگتا خواب
روز سورج کی طرح گھر سے نکل پڑتا ہے
روز پتھر کی حمایت میں غزل لکھتے ہیں
روز شیشوں سے کوئی کام نکل پڑتا ہے
…………………(جاری ہے)
پاکستان کو ملکر ہارڈ سٹیٹ بنائیں (2)
Apr 15, 2025