تحریر: تنویر حسین
غزہ ایک شہر نہیں مزاحمت اور جدوجہد کی علامت ہے۔ تاریخی طور پر غزہ کا خطہ فلسطینی مزاحمت کا مرکز رہا ہے۔ ماضی میں بھی فاتحین کو یروشلم تک پہنچنے کے لئے غزہ کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ غزہ ایک قدیم شہر ہے جو تمام مذاہب کے لئے اہمیت کا حامل رہاہ ہے۔ 3500پرانی تحریروں میں بھی غزہ کا ذکر متا ہے۔ انجیل مقدس میں بھی غزہ کا ذکر کئی بار آیا ہے۔
فلیسطین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں پرامن طور پر فتح ہوا اور اسلامی سلطنت کا حصہ بنا۔ خلافت راشدہ کے بعد یہ سرزمین اموی، عباسی اور فاطمی سلطنت کا اہم حصہ رہی۔ پہلی صلیبی جنگ کے دوران 1099ء میں عیسائیوں نے پروشلم پر قبضہ کر کے لاکھوں شہریوں کا قتل عام کیا۔ اس کے 88سال بعد سن 1187میں صلاح الدین ایوبی نے ارض مقدس کو عیسائیوں کے تسلط سے آزار کروا کر وہاں اسلامی پرچم لہرایا۔ ایوبی سلطنت کے بعد یہ علاقہ خلافت عثمانیہ کا حصہ بنا۔
پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست ہوئی تو انگریزوں کے جرمنی کے اتحادی ترکی سے بدلہ لینے کے لئے اس کے حصے بخرے کے کے بندر بانٹ شروع کر دی۔ اس طرح فلیسطین کو بھی کئی حصوں میں تقسیم کر دیا۔ یروشلم پر برطانیہ نے قبضہ کر کے بڑی تعداد میں یہودیوں کو بسانا شروع کر دیا۔ جبکہ غزہ کا علاقہ اردن کے پاس رہا۔
نومبر 1947میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے فلیسطین کی سرزمین کو مسلمانوں اور یہودیوں میں بانٹنے کا حکم دیا۔ جس کے نتیجے میں 1948میں عرب کے قلب میں فلیسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے نام سے ایک ناجائز ریاست قائم کر دی گی۔ عربوں نے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اسرائیل نے انگریزوں کی مدد سے 70فیصد فلیسطین پر قبضہ کر لیا۔ تاہم غزہ بدستور اردن کا حصہ تھا۔ تاہم 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں اسراء?ل نے عربوں کے مزید علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس نے یررشلم کے علاوہ شام سے گولان اور اردن سے غزہ بھی چھین لیا۔ برطانیہ کے بعد امریکہ نے اسرائیل کو گود لیا جس نے فلیسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ اس دوران عربوں نے فلیسطین کے لئے کئی جنگیں بھی لڑیں لیکن ہر مرتبہ اسرائیل مزید عرب علاقوں پر قابض ہوتا چلا گیا۔
سن 1993میں امریکی صدر بن کلنٹن کی ثالثی میں عربوں اور اسرائیل کے درمیان اوسلو معاہدہ ہوا جس میں اسرائیل کے صدر اضحاک رابن اور تحریک آزادی فلیسطین کے رہنما یاسر عرفات نے دستخط کئے۔ معاہدے کے تحت دو ریاستی حل کے لئے راہ ہموار کرنا تھا۔ سن 2004میں اسرائیل نے غزہ سے انخلاء کیا تاہم 2005کے انتخابات میں حماس کی کامیابی کے بعد اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر لیا جو آج تک جاری ہے۔ اس دوران غزہ کے شہری خوراک اور ادویات کی کمی کا شکار ہے۔ باہر سے آنے والی امداد بھی اسرائیل روک لیتا ہے۔ اسرائیل ہر دو چار بعد غزہ پر فوجی آپریشن اور بمباری بھی کرتا رہا ہے جس سے بڑی تعداد میں جانی نقصان ہوتا ہے تاہم اس ظلم سے اہل غزہ کے عظم و استقلال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حالیہ فوجی کاروائی مین اسرائیل نے انسانیت کی تمام حدیں عبور کر لی ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے اسرائیل نے کارپٹ بمباری کر کے غزہ کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت سے لاکھوں شہری شہید ہو چکے ہیں۔ مکانات سکول ہسپتال ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ شہر میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ عالمی برادری سے ملنے والی خوراک غزہ میں نہیں پہنچ پا رہی۔ امدادی قافلے اجازت نہ ملنے کے باعث ہفتوں مصر کی سرحد پر کھڑے رہتے ہیں۔
انسانیت کے خلاف اس بھیانک ظلم میں امریکہ اسرائیل کا نہ صرف دست وبازو ہے بلکہ وہ اسے اسلحہ بھی فراہم کر رہا ہے۔اقوام متحدہ میں اسرائیلی حارحیت کے خلاف آنے والے ہر قرارداد کو امریکہ ویٹو کر کے اسے مزید ظلم کا موقع فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ جو کر رہے ہیں وہ غلط ہے ہی مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان کیا کر رہے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ مسلم ممالک میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو اسرائیل سے جنگ کر سکے تاہم عرب ممانک اپنے چغرافیائی اہمیت کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اسرائیل چاروں طرف سے عرب ممالک کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ عرب ممالک اسرائیل فضائی حدود کو بند کر کے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کا واحد سمندری راستہ بھی مصر اور ترکی کے درمیان سے گزرتا ہے۔ اگر یہ ممالک راستہ بند کرنے کی جرات کریں تو اسرائیل سانس بھی نہیں لے سکتا۔ مگر بدقسمتی سے عرب حکمران اپنے اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔ کئی ممالک کے اسرائیل کے سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں۔ مسلم حکمران اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے امریکہ کی خوشودی چاہتے ہیں اور امریکہ کی خوشنودی اسرائیل کی خوشنودی میں ہے۔
غزہ ایک نظریئے کا نام ہے۔
Apr 15, 2025