’’تجارتی جنگ اور عالمی یوم ضمیر‘‘      

Apr 15, 2025

مسرت قیوم

          مسرت قیوم

        جس قوم نے زمین سے خلاء تک محیر العقول ایجادات ایجاد کر لیں ۔ ’’20, 21سال‘‘ میں نہایت تحمل ۔ بُرد باری سے خود کو بیرونی تنازعات ۔ عالمی معاملات میں ناروا دخل اندازی سے دُور رکھا۔ وہ ’’قوم‘‘ جس سے آج دنیا کی واحد سُپر پاور خوفزدہ ہے ہر لحاظ سے اقتصادی ۔ فوجی ۔ ’’وہ گنوار ہیں ‘‘ تو قارئین سوچئیے ’’گنواروں‘‘ کے قابل فخر کارنامے کہ دنیا بھر میں دھوم مچا رکھی ہے۔ گنواروں کی صنعتی ترقی کے کرشمے کہ کرہ ارض پر ہر گھر میں کچھ نہ کچھ اشیاء زیر استعمال ہیں اور دوسری طرف فوجی و صنعتی لحاظ سے طاقتور ترین ۔ ذہین ترین قوم کے صدر (وہ بھی بزنس مین) نے پوری دنیا کا گھنٹوں میں بھٹہ بٹھا دیا ۔تجارتی جنگ کی شدت کو ’’125‘‘ مزید ٹیرف ’’چین ‘‘ پر عائد کر کے بڑھا دیا ۔ ساتھ ہی صدر ٹرمپ کی ’’بیجنگ ‘‘ سے ڈیل ہونے کی بات یقینا حالات کو مزید بگاڑنے سے بچاؤ کی ایک مثبت تدبیر کہہ سکتے ہیں۔ صرف ایک فیصلہ سے پوری دنیا لڑکھڑا گئی ۔ تجارتی مارکیٹس دھڑام سے نیچے آگریں وہ بھی چند ہزار ۔ چند لاکھ نہیں بلکہ ’’اربوں ڈالرز‘‘ کے نقصان کے ساتھ۔ ایک ساعت کا فیصلہ (اعلان تو کرتے آرہے تھے) سالہا سال لے گا سٹاک مارکیٹس کو سابقہ پوزیشن کا نقصان پورا کرنے میں ۔ یقینا ’چین‘‘ کے ساتھ امریکی رویہ ضرور بدلے گا کیونکہ چینی قوم بھی انتہائی طاقتور پاؤں پر کھڑی ہے ۔ خود مختار ۔ کِسی کے زیر احسان نہیں۔ کِسی کے قرضدار نہیں ۔ تو ایسی قوم کو کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ سوئی دھاگہ سے خلائی طیارے تک اپنے ملک میں بنانے والے کیوں ڈریں گے؟؟ دھمکیوں سے کیوں مرعوب  ہونگے ؟؟
اتنی عظیم قوم۔ اتنے طاقتور ترین منصب پر غیر سنجیدگی حاوی ہے مان لیں ۔ نظر بھی آرہا ہے تمام فیصلوں کا محور ’’امریکہ‘‘ ہے۔ قوم کی ترقی ۔ امریکہ کی مضبوطی مقصود نظر ہے مگر طریق کار انتہائی غلط ہے۔ دھمکیوں کے ساتھ مذاکرات ۔ حملوں کے ساتھ وفود کی آمد ۔ سب کچھ اکٹھا چلنا دشوار ہے پوری دنیا ایک طرف کھڑی ہوگئی تھی ٹیرف کے معاملہ پر۔ صورتحال بالکل واضح ہوگئی ۔ یورپی یونین ۔ مغربی ممالک نے بھی جوابی ٹیرف عائد کر دیا تھا سب کو وقفہ مل گیا سوائے ’’چین ‘‘ کے ۔ جس نے اس جنگ کو شروع کیا ہے اُسی کو اِسے ختم کرنا پڑے گا ۔ یہ تصویر کسی کے بھی حق میں نہیں جائے بلکہ امریکہ کو زیادہ نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ 
        ’’50ڈالر فی بیرل تیل‘‘
        تیل کو’’ 50ڈالر‘‘ فی بیرل پر لائیں گے چاہے دنیا ہل جائے ۔ ’’صدر ٹرمپ‘‘ کا اعلان۔ مجھے تو بہت اچھا لگا یقینا قیمت کم ہونے پر دنیا ہلے گی نہیں بلکہ آگے بڑھے گی۔ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ ۔ فیصلہ ۔ جنگ کی صورت میں ’’تیل‘‘ کی قیمتیں ماضی میں بھی گر جاتی تھیں مگر قیمتیں مزید کم ہونے کے خدشہ پر تیل پیدا کرنے والے ممالک پیداوار کم کر دیتے تھے جس سے قیمتوں کی گراوٹ رُک جایا کرتی تھی مگر اِس مرتبہ پہلی مرتبہ شاید دیکھا کہ مسلسل گرتی قیمتوں کے باوجود تیل پیدا کرنے والے ممالک نے 

پیداوار میںمزید اضافہ کردیا۔ جتنی قیمت کم ہوگی اتنی صنعتی سرگرمیاں بڑھیں گی ۔ کارخانے چلیں گے تو لازمی طورپر ہر نئی ملازمتوں ۔ کاروبار کے مواقع پیدا ہونگے ۔ بہت بھلا اعلان ہے دُعا ہے کہ تیل کی قیمت متذکرہ بالا اعلان سے بھی کم ہو جائے ۔ ’’پاکستان ‘‘ کے لیے حالات انتہائی مفید۔ سازگار ہوچکے ہیں ہم کو کِسی کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہیے بلکہ صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی ٹھوس ۔ باعمل پالیسیاں بنائیں ۔ طویل المیعاد معاہدے کرکے ہم ’’اربوں ڈالرز ‘‘ بچا سکتے ہیں۔ہمارے لیے نعمت غیر مترکبہ ہے۔ مہنگائی کی بڑھتی لہر ختم ہوگی۔ روزگار بڑھے گا۔
’’عالمی یوم ضمیر‘‘
ایک طرف راکھ بنا فلسطین ۔ دوسری طرف جبری قبضہ کردہ مقبوضہ وادی کے مظلوم کشمیری ۔ ایران پر حملہ کی دھمکیاں ۔ ’’یمن‘‘ پر مسلسل بمباری ۔ عالمی طاقتوں کی پُرانی شکارگاہ افغانستان ۔ اِس تصویر میں دنیا بھر میں ’’عالمی یوم ضمیر ‘‘ منایا گیا۔ خوبصورت لوگوں کی خوبصورت باتیں ۔ خوشحال اقوام کے خوشحال دھقوسلے۔ سب کتابی کہانیاں ہیں۔ کتاب کے اندر ہیں وہ کتاب جو کبھی کھول کر پڑھی ہی نہیں گئی۔ ضمیر نام کی کتاب کا ٹائٹیل بہت خوفناک ہے صرف وہی دِکھائی دیتا ہے اندرونی صفحات خالی ہیں جن پر شاید کبھی بھی کچھ لکھا نہیں جائے گا۔ غزہ پر جارجیت کے خلاف مظاہروں کے نتائج ۔ چُن چُن کر ’’طالب علم‘‘ نکالے گئے۔ لوگوں کو پکڑا گیا۔ جمہوریت میں رہن سہن ۔ کھانا پینا ۔ بولنا ۔ دوسروں سے تعلقات ۔ شخصی آزادی ۔ انسانی وجود کا احترام ۔ اب کوئی بتائے کہ کہاں نظر آتا ہے ؟؟ بجا طور پر طاقت کی اہمیت سمجھ لی اِس لیے ’’افغان طالبان‘‘ نے اعلان کر دیا کہ اب قیامت تک امریکہ کو دشمن نہیں سمجھیں گے۔ ہماری خواہشات اپنی جگہ۔ دوست اقوام کے رویے ۔ یہ لمحہ بہ لمحہ بدلتی دنیا کے وہ حقائق ہیں جن سے ہم آنکھیں نہیں چُرا سکتے۔ صرف بات چیت ہی شافی علاج ہے۔
امریکہ کا دنیا پر چین کے علاوہ عائد ٹیرف کے نفاذ میں ’’90ون‘‘ کے وقفہ کے اعلان پر تجارتی رونقیں بحال ہو گئیں مگر چین پر مزید بھاری بھر کم ٹیرف کے اعلان سے خود امریکی سٹاک مارکیٹس پھر گر گئیں ۔ دنیا کو تو نقصان ہو ا ہی مگر سب سے زیادہ نقصان ’’امریکہ‘‘ بھگت چکا ہے ظاہر ہے معیشت کا جتنا بڑا سائز ہوتا ہے اچھے یا بُرے فیصلوں کی قیمت بھی اُسی حساب سے چُکانا پڑتی ہے۔ اندازہ ہے کہ ’’امریکہ‘‘ ضرور مذاکرات پر بیٹھے گا اور اول دن سے ’’صدر ٹرمپ‘‘ دنیا کو بات چیت کی دعوت بھی دیتے آرہے ہیں۔ بیجنگ سے ڈیل ہونے کی بات کر کے ’’صدر ٹرمپ‘‘ نے بلاشبہ مثبت سمت کو اختیار کیا ہے۔ ٹیرف کا فیصلہ غلط ہے یا صحیح ۔ یقینا ہر قوم اپنے معاملات خود بہتر انداز میں دیکھ ۔ سُلجھا سکتی ہے مگر بارود پہلے پھینک کر پھر پانی پھینکنے کی باتیں کوئی ذی شعور نہیں کرتا۔ امریکہ ۔ایران صلح بہت حد تک ممکن ہے براہ راست رابطہ کے امکانات قوی ہیں اِس کے لیے بھی رویوں میں شدت ختم کرنی پڑے گی۔ امن صرف بات چیت سے ممکن ہے جنگ سے حالات بگڑتے ہیں۔ دھمکیوں سے اپنے بھی دُور ہٹ جاتے ہیں۔ ہر قوم ۔ ہر ذِمہ دار منصب کو لمحہ حاضر میں ہوش مندی ۔ تحمل کے ساتھ چلنا اور فیصلے کرنا ہونگے ورنہ دنیا کے اکثریتی حصہ میں ’’جنگیں‘‘ تو ہو ہی رہی ہیں اور نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔

مزیدخبریں