بڑی طاقتوں کے رویے
بلاشبہ قومی سلامتی سے متعلق معاملات ہمیشہ ہی موضوع بحث رہے ہیں۔ اندرونی و بیرونی چیلنجز خارجہ و داخلہ پالیسیوں میں اہم کردار ادا کرتے چلے آئے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے واشگاف انداز میں اعلان کر دیا تھا کہ اب وہ جوہری طاقت بن چکا ہے اور اس کا مظاہرہ جاپان کے ہیرو شیما اور ناگاساکی پر حملہ کر کے کر چکا ہے۔ 1945 میں کیا گیا یہ حملہ اس قدر ہولناک تھا کہ جاپانی قوم ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی ۔ لہذا دنیا نے یہ سبق سیکھ لیا کہ جوہری طاقت کے آگے مزاحمت کرنا نہایت ہی مشکل اور کٹھن معاملہ ہے ۔ امریکا کے حملے کے نتیجے میں پیدا شدہ صورتحال کے بعد دوسری طاقتوں نے بھی جوہری قوت حاصل کرنے کی تگ و دو شروع کر دی۔ روس اور برطانیہ کے بعد فرانس، چین، بھارت اور پاکستان نے بھی ''قومی سلامتی '' کے چیلنجز کو بنیاد بنا کر جوہری طاقت حاصل کر لی۔ بعد ازاں ایران اور شمالی کوریا بھی اس دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔ اب جبکہ نصف درجن سے زائد ممالک جوہری قوت حاصل کر چکے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ کس طرح سے ایٹمی تابکاری، جوہری ہتھیاروں کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے اور جوہری پھیلاو کو روکنے جیسے اہم مسائل سے کس طرح نمٹا جائے۔ سرد جنگ کے دوران امریکا اور سویت یونین ( روس) کے درمیان ایسے کئی معاہدے کیے گئے جن کا بنیادی مقصد جوہری ہتھیاروں کو کم سے کم سطح پر برقرار رکھنا اور اس کے پھیلاو کو روکنا مقصود تھا۔ اسی حوالے سے نیوکلئیر نان پرولیفریشن ٹریٹی (این۔ پی۔ ٹی) کا قیام بھی عمل میں لایا گیا جو اب تک واحد ایسی ٹریٹی ہے جس پر تقریبا 150 سے زائد ممالک نے دستخط کیے ہوئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ تمام ممالک کسی نہ کسی سطح پر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ ایٹمی قوت حاصل کرنے کی بجائے اس کو پر امن مقاصد کے حصول کی خاطر استعمال میں لائیں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور بھارت نے اب تک اس ٹریٹی پر دستخط نہیں کیے جس کی بنیادی وجہ اس ٹریٹی کی جانب سے اپنے قیام سے پہلے کی جوہری طاقتوں کو ہی تسلیم کرنا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں ایک ایسی پیشرفت سامنے آئی ہے جس نے این پی ٹی کی ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ پیشرفت برطانیہ کی جانب سے سامنے آئی ہیں جہاں پر آئندہ 10،15 سال کی پالیسی کا اعلان کرتے وقت اس بات کا بھی اشارہ دیا گیا ہے کہ برطانیہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کرے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے پاس لگ بھگ 200-180 جوہری ہتھیار موجود ہیں جن میں اضافہ انتہائی تشویشناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ برطانیہ کی اس رپورٹ کے بعد یہ بحث چل پڑی ہے کہ آیا برطانیہ بریگزٹ کے بعد قومی سلامتی سے متعلق کون کون سے نئے اقدامات اٹھا سکتا ہے؟ ان معاملات میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ ففتھ جنریشن وار کے اس دور میں برطانیہ جیسا طاقت ور ملک بھی روایتی جنگ کے خطرات سے بے خبر نہیں ہے۔ عالمی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین اس بات پر سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر جوہری ہتھیار وں کے بعد دنیا محفوظ ہو گئی تھی تو برطانیہ نے اپنے دستیاب ہتھیاروں میں مزید جدت لانے کی بجائے تعداد میں اضافہ کرنے کا کیوں سوچا۔ عددی اعتبار سے امریکا اور روس باقی تمام ممالک سے کہیں آگے نظر آتے ہیں جنکے پاس ہزاروں کی تعداد میں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ مگر دونوں ممالک اس تعداد کو بتدریج کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں۔ 'سٹارٹ ' اور 'نیو سٹارٹ ' اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ مگر برطانیہ کا موجودہ رویہ پریشانی میں مزید اضافہ کر رہا ہے کہ اگر ایک ذمہ دار ملک ہی عددی تعداد میں اضافہ کرے گا تو پاکستان اور بھارت کے جوہری پروگراموں پر تنقید نہیں کی جا سکے گی۔ پاکستان اور بھارت اب تک کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اور دونوں ممالک میں پایا جانے والا اعتماد کا فقدان اس بات کو مزید گھمبیر بنائے گا کہ دونوں ممالک برطانیہ کی روش اختیار کر لیں۔ بورس جانسن کی حکومت یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ مستقبل کہ خطرات کا تعلق ان کی پالیسیوں سے جوڑا جائے مگر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آئندہ سالوں کے لیے جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی پالیسی کا اعلان کر کے برطانیہ نے نہایت 'غیر ذمہ دارانہ جوہری رویہ ' اپنا یا ہے جس کے دو رس اثرات آنے والے وقت میں نمایاں ہوں گے۔