ریاست ہوتی ہے ماں جیسی
کیا ایک سیاسی مذہبی لیڈر کی گرفتاری خلاف سازش ہے؟کیا گرفتاری کا حل گفتگو سے نہیں ہو سکتا؟ اس وقت ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کا فوری اجلاس بلایا جائے اور تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر فیصلہ کریں کہ احجاج کرنے والوں کے مطالبات اور عوامی مشکلات پر کیا اقدامات ہونے چاہئیں۔اس کے علاوہ پاریمنٹ یہ بھی فیصلہ کرے کہ مذہب، فرقہ، علاقہ ، زبان کے نام پر سیاسی جماعت نہیں بنائی جا سکتی۔ ایسی تمام جماعتیں حکومتی اور سیاسی میدان میں پریشر گروپ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ وقتی حل تو شائد درست ہو مگر دنیا میں جو ہماری بدنامی ہوتی ہے اس کا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ سیاستدان مل کر کوئی فیصلہ نہیں لیتے بلکہ ڈنگ ٹپائو پالسی پر عمل کرتے ہیں جس سے عالمی سطح پر بھی پاکستان بدنام ہوتا ہے، جمہوریت بھی کمزور ہوتی ہے ۔ اس وقت پر تشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں اور حزب اختلاف کی جماعتیں اسی طرح تحریک انصاف کو بدنام کر رہی ہے جس طرح اس نے فیض آباد دھرنے میں مسلم لیگ ن حکومت کے خلاف کیا تھا پاکستان کی تاریخ میں کرپشن سے بچنے کے لئیے قوانین بنے مگر نظریاتی مسائل کو حل نہ کیا گیا بلکہ بائیں بازو کو ختم کر دیا گیا حالانکہ ریاست اپنے تمام شہریوں کو آزادی عطا کرتی ہے کیونکہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔ جمہوریت مغربی فلسفہ ہے اور جمہوری نظام کے تمام اجزا مغربی فلسفہ اور سماج کے تجربہ سے حاصل کیے گیے ہیں ۔مغربی فلفسہ اور آئین یا نظام چونکہ انسانی دماغ کی اختراع ہے لہذا اس کا انسانی فطرت کے مطابق ہونا یقینی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام سائنس اور سماجی علوم کی مغرب میں لکھی جانے والی کتابیں دنیا کے تمام معاشروں میں مفیداور قابل مطالعہ ہیں۔ تمام مذاہب اور خاص کر اسلام فطر ت انسانی کے عین مطابق ہے لہذا مغربی فلسفہ اور نظام کے کئی پہلو اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں ۔مغربی فلسفہ میں مذہب کو انسانی ضرورت کے مطابق استعما ل کیا گیا ہے اور اسے مغربی رویوں یا کلچر کی مکمل اشیرباد حاصل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا کا اپنا کلچر ،اپنا سماج،اپنا فلسفہ، اپنا نظام اور اپنی تعلیم یافتہ لیڈر شپ ۔دوسری طرف پاکستان کا نہ اپنا فلسفہ ،نہ اپنا نظام، نہ مقامی کلچر کا عمل دخل ،نہ ہی تعلیم یا فتہ سماج اور نہ ہی عظیم لیڈرشپ ،اس کے ساتھ ساتھ مذہب بھی عرب معاشرہ میں آیا اور اس کے بعد برصغیر میں آیا۔عربی زبان کی وجہ سے ایک ان پڑھ معاشرہ کے لیے اسلامی فلسفہ اور نظام کی تفہیم خاصا مشکل تھی جس کی وجہ سے یہ مذہب محض ثواب کے لیے استعمال ہوتا آرہا ہے ۔اسلام زندگی کے ہر پہلوپر ایک الگ فلسفہ عطاکرتا ہے مگر غربت مسائل اور بری حکومت کی وجہ سے لوگوں نے مذہب کو روٹی پانی ،فرقہ واریت کے ذریعے تکفیر کے لیے استعمال کیا۔برصغیر میںغیر ملکی حکمرانوں نے لوگوں کیمحرومیوں میں مزید اضافہ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا لباس ،ہماری اخلاقیات ،طرز زندگی ،نظام ،قوانین ،بری طرح متاثر ہوئے ۔مقا می فلسفہ اور کردار مکمل نظرانداز کیا گیا۔ کلچر کسی بھی غیر ملکی یلفار کا بہتر ین مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے جس کو مذہبی حلقے بہت پہلے نشانہ بنا کر اس اہم ترین ادارے کو کمزور کرچکے تھے لہٰذا اب ان مذہبی حلقوں کو مغربی فلسفہ ،نظام ،آئین ،اخلاقیات اور کردار کا تن تنہا مقابلہ کر نا تھا جو ممکن نہ ہو سکا۔ صدحیف مذہب کا کچھ طبقہ سیاسی شعبدہ بازی کا شکا رہوگیا، کچھ فرقہ واریت کا خودہی شکار ہوگئے ،کچھ نے روزی روٹی کا ذریعہ بنایا اور کچھ سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن گئے ۔ان مذہبی حلقوں میں آج کوئی بین الاقوامی سطح کا نہ عالم نظر آتا ہے جس کی تحریر یں مغربی فلسفہ ،آئین، نظام ،قوانین اور اخلاقیات کو چیلنج کرکے قوم کو سیدھار استہ دکھا ئے۔قخط الرجالی کے اس دور میں مذہبی افراد اور سیاسی رہنماؤں کی کار ستانیوں کو دیکھ کر غیر تعلیم یافتہ طبقے جو کچھ کرسکتے تھے وہ ہم دیکھ بھی رہے ہیںاوربھگت بھی رہے ہیں اور آنے والی کئی دہائیوں تک بھگتتے رہیں گے کیونکہ سکول، مدرسہ، کالج، یونیورسٹیا ں،مسجدیں تربیت گاہیں ہوتی ہیں اور مثبت تبدیلی کا ذریعہ ہوتی ہیں مگر بد قسمتی سے یہاں پر شدت پسندی سکھائی جاتی ہیں پھر لوگوں کو پریشان کرنا،اذیت پہنچانا ،دھرنے سے مریضوں عورتوں بچوں بزرگوں کو یرغمال بنانے کے عمل کو خد مت بنا کر پیش کرنے میں درسگاہوں اور ان کی انتظامیہ کا بہت کردارہے ۔ایک سیاسی مذہبی لیڈر کی گرفتاری کو سازش بنا کر پیش کیا جاتاہے ۔پرسوں رات میں چھے گھنٹوں تک ٹریفک میں پھنسارہا، ساتھ میری بیٹی بھی تھی اور جس طرح ان پڑھ شدت پسند لوگوں سے پیش آرہے تھے اوروہ جوبھونڈے دلائل پیش کررہے تھے ان پر مجھے تو کوئی دکھ نہیں ہو ا اور نہ ہوگا کیونکہ ایک تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے علم ہے کہ مذہب ،جہالت ،علم ،کرداریت ،شدت پسندی اور لالچ کا ہمارے سماج میں کیا حصہ اورمقام ہے اور کسی رہنما یا جماعت کے پاس کردار وفلسفہ کی کیا حیثیت ہے ۔لہٰذا میں ایک لفظ بھی نہ بولااور خاموشی سے ان کی گفتگو کے معیار کا اندازہ لگاتا رہا ان کی مہربانی تھی کہ انہوں نے بڑھکوں پر اکتفا کیا اور بحث کرنے والوں نے صبر کا مظاہرہ کیا ورنہ بات آگ اور گولیوں تک بھی جا سکتی تھی اور پاکستان میں غریب کی زندگی اور موت دونوں سے فائدہ صرف حکومت، سیاسی جماعتیں اور دولتمند طبقے اٹھاتے ہیں۔یہ اندازہ مجھے پہلے بھی معلوم ہے مگر اس وقت کرنے کیلئے کوئی اور کام نہ تھا انٹر نیٹ کی چارجنگ ختم ہوگئی تھی لہٰذا مجھے یہ گفتگو سننا پڑی۔ میں غور سے سنتارہا اور آنے والی دہائیوں کے بارے میں سوچتا رہا ۔ میں شکرادا کر رہا تھا کہ شکر ہے کہ آنے والی ان بھیانک دہائیوں میں ہم مرچکے ہوں گے۔ مگر ساتھ ہی اپنی اولادوں اور عام لوگوں کا خیال آتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا ۔کس طرح یہ نسلیں مردوں کی طرح جی سکیں گی؟ حقیقت یہی ہے کہ وہ زندہ مردار ہوں گے اور بے حسی کے ساتھ جی رہے ہوں گے اور لوگ شدت کے جذبات کی رو میں بہہ کر خود مسائل کی چکی میںپستے رہیں گے اور ان کے مذہبی رہنما بہترین زندگی بسر کرتے رہیں گے ۔غیر تعلیم یافتہ طبقوں کو تو آنے والی دہائیوں میں علا مہ اقبال مے درست کہا
ہم کو تومیسر نہیںمٹی کادیابھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
صرف دعا کی جاسکتی ہے کہ ان لوگوںمیں یہ شعور عطا کر کہ انسانوں کی بہتری تشدد اور چالاکی سے نہیں بلکہ علم اور عدم تشدد کی حکمت عملی میں پنہاں ہے۔