تنخواہوں اور پنشن کا یکساں نظام - اہم ضرورت
آئین پاکستان جس کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں ،لیکن سرکاری اور نیم ادارے ہر ملازم کو ایک آنکھ سے نہیں دیکھتے ۔روایت ہے کہ پہلے خلیفہ کا بیت المال سے وظیفہ مقرر کر نے کا وقت آیا جب اِنکی رائے لی گئی تو انھوں نے فرمایا اتنا مقرر کیا جائے جتنی مدینہ کے مزَدور کی اُجرت ہے، جب اَمیر المو منین کا وظیفہ بڑھے گا تو مزدور کی اُجرت از خود بڑھ جائے گی، اِسلامی ریاست میں حاکم وقت اور عام شہری کو مالی اعتبار سے ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عام مزدور اِسکے اہل خانہ احساس محرومی کاشکار نہ ہوں۔ اور اِنکی ضروریات بھی پوری ہو جائیں۔ کہا جاتا ہے کہ سوشل ازم کے نظام کی جو خوبیاں بیان کی جاتی تھیں اِن میں ایک یہ بھی تھی کہ تمام سرکاری ملازمین کی مالی مراعات یکساں تھیں، اس پر دلیل یہ دی جاتی کہ تمام ملازمین کی بنیادی ضروریات جب ایک جیسی ہیں تو انکی تنخواہ فرق رکھنے کا پھر کیا جواز ہے؟
مجوزہ ریاست مدینہ جس کے شہری نہ صرف اِس وقت پریشان ہیں بلکہ اس کے نو زائیدہ وزیر خزانہ بھی تنخواہوں اور پنشن کے موجودہ ماڈل کی غیر منصفانہ تقسیم پر نا خوش ہیں،وہ تنخواہوں،پنشن، الائونسز کو حقیقت پسندانہ ، منصفانہ بنانے کے لئے پے اینڈ پنشن کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں تنخواہوں اور پنشن کا یکساں نظام لاگو کرنے کے خواہاں ہیں، وفاقی اور صوبائی ملازمین نے اِس کمیشن سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں،گمان کیا جاتا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کے موقع پر وزیر موصوف سرکاری ملازمین کو اداروں کے مابین پایا جانے والا فرق ختم کرنے کی خوشخبری ضرور سنائیں گے۔کہاجا تا ہے کہ آئی ایم ایف کے متعلقین ہمارے پنشن کے نظام پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور اس کے لئے کوئی نیا نظام متعارف کروانے کے خواہاں ہیں تاکہ سرکارکا مالی بوجھ کم کیا جاسکے۔
ہمارے ہاں جو پنشن ملازمین کو ملتی ہے یہ اتنی قلیل ہے کہ خواہشات تو رہیں ایک طرف بلکہ ملازمین کی غالب تعداد کی بنیادی ضروریات ہی پوری نہیں ہو پاتی، زندگی بھر کی کمائی سے اس نے بچوں کی شادی ،مکان کی تعمیر، حج کی ادائیگی کی وہ خواہشات پال رکھی ہوتی ہے جو سرکار کی طرف سے ادا کردہ رقم میں پوری نہیں کی جاسکتی ہیں، ہمارامعاملہ یورپ سے قطعی مختلف ہے وہ ریاستیں فلاحی حکومتوں کا روپ دھار چکی ہیں، وہاں بے روزگار بچے والدین پر بوجھ نہیں ہیں، شادی کا معاملہ بھی مختلف ہے،صحت ،تعلیم، علاج معالجہ، مکان کی فکر سے وہ آزاد ہیں،جس طرح وہاں عوام سے ٹیکس لیا جاتا ہے اس طرح یہاں تو صرف سرکاری ملازمین ہی باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں۔یہاں ٹیکس گزاروں کے ساتھ آئی ایم ایف کا رویہ یکسر الٹ دکھائی دیتا ہے۔گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک اتھارٹی کے چیرمین کی بارہ لاکھ ماہانہ تنخواہ کا نوٹیفکیشن وائرل ہوا تھا اس طرح کی بے شمارمثالیں ہیں ۔
بعض نیم سرکاری اتھارٹی سربراہان کی ماہانہ تنخواہ نصف ارب کے قریب ہے، دیگر مراعات اس کے علاوہ ہوتی ہیں، اس شرح سے تنخواہ کا معاملہ واقعی قابل توجہ ہے، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ نیم سرکاری اداروں میں جہاں من پسند افراد کا تقرر کرنا مقصود ہو وہاں تقرری کی شرائط ہی بدل دی جاتی اور انکو مشتہر بھی امیدوار کی خواہش کے مطابق کیا جاتا ہے، جس میں مراعات اور تنخواہ بھی اُمیدوار کی رضا پر چھوڑ ی جاتی ہے، جب بیرون ملک سے گرانٹ، مالی امداد لینا مقصود ہو تو محکمہ کی جگہ اتھارٹیز کو مکمل سیٹ اپ کے ساتھ بنانا لازم ہوتا ہے، اِن نشستوں پر عموماً اُن لوگوں کا چنائو کیا جاتا ہے جنہوں نے سیاسی طور پر حکومت وقت کو سپورٹ کیا ہوتا ہے۔ ایسے اداروں میں تعینات افراد کو بھاری بھر مالی مراعات دینے کے لئے صوابدیدی اختیارات کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایسا غیر منصفانہ نظام ہی ہماری معشیت کے لئے زہر قاتل ہے۔
وزیر موصوف نیک جذبہ سے تنخواہوں اور پنشن کے تفاوت کو ختم کر کے یکساں نظام لاگو کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں تووہ تمام سٹیک ہولڈرز کو مدعو کریں تاکہ انکی آراء کی روشنی میں ایک پائدار نظام مرتب کیا جاسکے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہو گا کہ ایک ہی ریاست کا سرکاری ملازم تو بیرون ملک جائدادیں بنائے اوراس کے بچے وہاں کاروبا رکریں لیکن دوسرا ملازم اپنی پنشن میں چند مرلے زمین بھی خرید نہ کر سکے اِس تفریق کا خاتمہ ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔