امریکی صدر بائیڈن کا 11 ؍ ستمبر تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کا ٹھوس عندیہ
امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج رواں برس 11؍ ستمبر تک غیرمشروط طور پر واپس بلانے کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس سلسلہ میں خبررساں ایجنسی اے ایف پی نے ایک امریکی عہدیدار کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے 20 سال مکمل ہونے سے قبل امریکہ اپنی طویل ترین جنگ کا اختتام کردیگا۔ امریکی عہدیدار کے بقول صدر بائیڈن اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کا 11؍ ستمبر سے پہلے مکمل انخلاء کرلیا جائے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے تحت یکم مئی سے پہلے افغانستان سے فوجی انخلاء ہونا ہے۔ اس وقت افغانستان میں 2500 سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں۔ امریکی عہدیدار کے بقول صدر بائیڈن افغان جنگ کو قومی مفاد کے منافی سمجھتے ہیں۔
نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں امریکہ کے فوجی ہیڈکوارٹر پینٹاگون پر 2001ء میں امریکی ری پبلکن صدر بش جونیئر کے دور میں خودکش فضائی حملے ہوئے تھے جن میں تین ہزار سے زائد لوگ مارے گئے جبکہ ان حملوں سے امریکی سکیورٹی کا بھی سوال اٹھا۔ بش انتظامیہ نے ان حملوں کا ملبہ اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ پر ڈالا اور مسلم دنیا کیخلاف اعلانیہ کروسیڈ کا آغاز کر دیا۔ اسامہ بن لادن کے افغانستان میں ہونے کے باعث امریکہ نے نیٹو فورسز کی معاونت سے افغانستان کو میدان جنگ بنا دیا جس میں بدقسمتی سے اس وقت کے جرنیلی آمر مشرف نے امریکی فرنٹ لائن اتحادی بننا قبول کرلیا اور نیٹو فورسز کو لاجسٹک سپورٹ کیلئے پاکستان کے چار ایئربیسز امریکہ کے حوالے کر دیئے۔ امریکی نیٹو فورسز نے اس جنگ میں افغانستان کا تو ’’تورابورا‘‘ بنایا اور طالبان حکومت کو گرا کر وہاں کرزئی کی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی جنہوں نے بھارت کی گود میں بیٹھ کر پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھی سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا جبکہ اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کے ردعمل میں پاکستان بھی براہ راست لپیٹ میں آگیا۔ طالبان نے پاکستان کی سرزمین پر خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ امریکہ نے پاکستان کے مخلصانہ کردار پر بھی بدگمانی کا اظہار کرتے ہوئے ’’ڈومور‘‘ کے تقاضوں کا آغاز کیا اور ساتھ ہی پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا چنانچہ اس مادر وطن کے باسی ڈرون حملوں میں گاجر مولی کی طرح کٹنے لگے جبکہ امریکہ سے برسر پیکار طالبان نے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میں شہریوں کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے افسران و اہلکاروں اور انکی عمارتوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا‘ نتیجتاً پاکستان کے 70 ہزار سے زائد شہری بشمول سکیورٹی فورسز کے دس ہزار سے زائد اہلکار شہید ہوئے جبکہ زخمی ہو کر مستقل معذوری کی زندگی بسر کرنیوالے پاکستانیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان کی معیشت کو بھی دو ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا اور ملک کی سلامتی الگ دائو پر لگ گئی۔
چار لاکھ کے قریب نیٹو فورسز کے ساتھ افغان جنگ 2012ء تک گھمسان کی جنگ کی صورت میں برقرار رہی جس کے دوران پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ بالآخر نیٹو سربراہی کانفرنس میں نیٹو فورسز کو افغانستان سے مرحلہ وار نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ نیٹو کے دیگر ممالک نے تو 2015ء تک اپنی افواج افغانستان سے نکال لیں مگر امریکہ نے کرزئی کے ساتھ معاہدے کے تحت مجموعی ایک لاکھ میں سے اپنے 20 ہزار فوجی افغانستان میں ہی موجود رکھے۔ اس طرح پاکستان کا فرنٹ لائن اتحادی کا کردار بھی برقرار رہا جس کا خمیازہ ہمیں 17 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور میں خودکش دہشتگرد حملے کی صورت میں بھگتنا پڑا جس میں ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچے اور انکے اساتذہ شہید ہوئے۔ اس سانحہ کے بعد قومی سیاسی اور عسکری قیادتوں نے یکسو ہو کر وطن عزیز کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا عزم باندھا اور نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیکر دہشتگردوں کے ٹھکانوں پر اپریشنز کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس سے دہشتگردوں کی کمر ٹوٹی اور ملک میں امن کی بحالی کے امکانات روشن ہوگئے مگر ہماری سلامتی کے درپے بھارت نے افغان سرزمین کے راستے پاکستان کے اندر دہشتگردی کا نیٹ ورک قائم کرکے بدترین دہشتگردی کا سلسلہ شروع کر دیا جو ہنوز جاری ہے۔ چنانچہ سکیورٹی فورسز کے اپریشنز کا سلسلہ بھی برقرار ہے۔ اس طرح افغان جنگ کا براہ راست اور بالواسطہ سب سے زیادہ پاکستان کو ہی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوتا‘ ہمیں انتہاء پسندوں کے علاوہ بھارت کی پھیلائی دہشتگردی کا بھی سامنا رہے گا اس لئے افغانستان میں امن کی بحالی پاکستان کی اپنی ضرورت بھی ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان نے خطے کے امن کی خاطر طالبان کے ساتھ امریکہ کے معاملات طے کرانے کیلئے رابطے کے پل کا کردار ادا کیا اور اسکی کوششوں سے ہی سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر میں امریکہ اور طالبان قیادتوں کے ایک میز پر بیٹھنے کی راہموار ہوئی۔ امریکی ٹرمپ انتظامیہ کیلئے اسی بنیاد پر پاکستان کی اہمیت بڑھی اور اسے پاکستان کے ساتھ اپنا مخاصمانہ طرز عمل چھوڑنا پڑا۔ ٹرمپ کے اقتدار کے آخری چند ماہ کے دوران افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کیلئے امریکہ اور طالبان کے مابین معاہدہ بھی ہو گیا جس پر عملدرآمد کی راہ میں فریقین کی ایک دوسرے کے ساتھ بدگمانیوں کے باعث رکاوٹیں پیدا ہوتی رہی ہیں جبکہ کابل حکومت بھارت کے ایماء پر اس معاہدے کی بیل منڈھے نہ چڑھنے دینے کی سازشوں میں مصروف رہی ہے۔ تاہم افغانستان سے فوجی انخلاء اب خود امریکہ کی ضرورت بن چکا ہے جس کیلئے واشنگٹن کی موجودہ بائیڈن انتظامیہ زیادہ سنجیدہ ہے کیونکہ جوبائیڈن امریکی قوم کو امن کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں افغانستان میں قیام امن کیلئے اس ماہ 24 اپریل کو ترکی میں ہونیوالی امن کانفرنس کے نتیجہ خیز ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ یہ کانفرنس 4 مئی تک جاری رہے گی جس پر اقوام متحدہ نے بھی تکیہ کر رکھا ہے اور اسکی جانب سے خودمختار اور متحد افغانستان کے قیام کا عزم ظاہر کیا جارہا ہے۔
اس کانفرنس کے انعقاد سے پہلے امریکی صدر کی جانب سے 11؍ ستمبر تک افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلاء کا اعلان ترکی امن کانفرنس کی کامیابی کی دلیل بن سکتا ہے جس سے پاکستان اور خطے کے امن کی ضمانت بھی مل سکتی ہے تاہم اس کیلئے تمام فریقین کا ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہونا ضروری ہے۔ فریقین میں اخلاص کے فقدان کے باعث ہی طالبان نے دہشت گردی کا سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے اور گزشتہ روز بھی بلخ چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجہ میں گیارہ افغان فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ اگر امریکہ طالبان معاہدے کی بنیاد پر افغانستان میں جنگ بندی نہیں ہوگی تو افغان سرزمین مستقل قیام امن کو ترستی ہی رہے گی۔ اس کیلئے کابل حکومت اور طالبان کے مابین غلط فہمیاں دور کرنا ضروری ہے تاکہ امن کی فضا میں امریکہ کو افغانستان سے مکمل فوجی انخلاء کا موقع مل سکے۔ افغان امن عمل میں پاکستان کے ٹھوس کردار کی اہمیت بہرصورت برقرار رہے گی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38