جمعرات ‘2 ؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 15؍ اپریل2021ء
وفاقی کابینہ نے والٹن میں بزنس سینٹرز بنانے کی منظوری دیدی
بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ سرمایہ دار مافیا نے وہ کر کے دکھایا جس پر لوگ شورمچا رہے تھے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ سول سوسائٹی ، ماحولیاتی ماہرین ، لاہور کی آلودگی سے پریشان، درختوں اور سبزے کی تباہی سے نالاں لوگ اور تنظیمیں والٹن میں بزنس سنٹر کے قیام پر بارہا احتجاج کرتی رہی ہیں مگر ان بے وسیلہ صدائوں پر کوئی کان نہیں دھر رہا۔ والٹن ائیر پورٹ لاہور کی ایک صدی پرانی شناخت ہے ۔ اسکے اردگرد پھیلے سرسبز درختوں کے جھنڈ جنہیں چھوٹا جنگل بھی کہتے ہیں آلودگی کا شکار لاہور کیلئے آکسیجن کی فراہمی اور سانس لینے میں آسانی کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ اب یہاں بزنس سنٹر کی تعمیر کے نام پر اس جنگل کی کٹائی ہو گی۔ والٹن ائیر پورٹ کی پرانی تاریخی عمارت زمین بوس کر دی جائیگی۔ یہ عجب دوغلی پالیسی ہے۔ ایک طرف حکومت سرسبز پاکستان آلودگی سے پاک ماحول، تاریخی اور سیاحتی مقامات کے تحفظ کے بلند بانگ دعوے کر رہی ہے تو دوسری طرف تعمیر کے نام پر بزنس کے نام پر ماحولیاتی تناسب بگاڑا اور تاریخ مٹائی جا رہی۔لاہور والوں کو تازہ اور صاف ہوا سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ملتان میں عدالت کے حکم پر فی الحال آم کے درختوں کا باغات کا قتل عام رک چکا ہے حالانکہ اندر خانے چھپ چھپ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔اب لاہور میں والٹن ائیر پورٹ اور اس کے گھنے ہرے بھرے جنگل کو بچانے کیلئے کوئی تومیدان میں آئے۔پہلے ہی لاہور کی شکل بگاڑی جا چکی ہے۔تاریخی قدیم عمارتیں گرائی جا چکی ہیں۔ لینڈ مافیا اور سرمایہ دارمافیا نے پورے شہر کواپنی مٹھی میں جکڑ رکھا ہے۔ خدارا اسے سانس لینے دیا جائے لاہور اور لاہوریوں کو تازہ ہوا اور سرسبز ماحول میں رہنے کی عادت ہے ان سے یہ حق تو نہ چھینا جائے۔
٭٭٭٭٭
حکومت کی کوششوں سے قوم کو ایک ہی دن روزہ رکھنے کا موقع ملا۔ طاہر اشرفی
واقعی یہ بات بہت حوصلہ افزا ہے۔ خدا کرے یہ سعادت تادیر سلامت رہے اور قوم ایک ہی دن روزہ رکھنے کی برکات سے مستفید ہو۔ اب اسکے ساتھ ساتھ ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری علما اور رویت ہلال کمیٹیوں کا یہ حسن اتفاق شوال یعنی عید کے چاند پر بھی مبارک ثابت ہو اور پورے ملک میں ایک ہی روز عید بھی منائی جائے۔ قوم کی نظریں اتحاد و اتفاق کے اس روح پرور منظر کیلئے کب سے ترس رہی ہیں۔ چودھری فوادکی وزارت تبدیل ہونے کی اطلاعات کے بعد تو رویت ہلال کمیٹی والوں کے حوصلے اور بھی بلند ہو گئے ہونگے۔ویسے اگر یہ دونوں مل کر کام کریں تو مزید بہتری کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔ اس یکجہتی میں مولانا طاہر اشرفی کا کردار واقعی اہم رہا ہے جنہوں نے نہایت کم مدت میں رویت ہلال کے مسئلے پر بکھرے ہوئے لوگوں کو یکجا کیا اور نہایت خوش اسلوبی سے یہ مسئلہ حل کر کے سب کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ سب سے زیادہ خطرہ پشاور کے مولانا پوپلزئی کا رہتا تھا۔ اب وہ بھی مولانا طاہر اشرفی کے پہلو میں نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں سابق چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن سوچ رہے ہونگے کہ ان سارے اختلافات کی وجہ کیا وہی تھے کہ انکے دور میں رویت ہلال رمضان ہو یا شوال ہر موقع پر کبھی دو اور کبھی تین چاند چڑھائے جاتے تھے۔ انکے جاتے ہی دیکھ لیں کیسے سب ایک ہی چاند پر متفق ہو گئے ہیں۔
٭٭٭٭٭
کوئی جیل سے باہر آ گیا تو سائیلنٹ موڈ اختیار کرنا ہو گا۔ شہباز گل
وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے گزشتہ روز یہ بیان کچھ سوچ سمجھ کر ہی دیا ہو گا۔ تاہم اس کی حقیقت آج اس وقت سامنے آ گئی جب لاہور میں عدالت نے میاں شہباز شریف کی ضمانت منظورکر لی۔ معلوم ہوتا ہے شہباز گل کو پہلے ہی سے اندازہ تھاکہ ایسا ہونے والا ہے۔ جبھی تو انہوں نے پہلی فرصت میں اشارہ دیدیا اور ساتھ ہی واضح بھی کر دیا کہ باہر آنیوالے کو اب گرجدار بیانات اور تقریروں کے شوق سے گریز کرنا ہو گا اور موبائل کی طرح سائیلنٹ موڈ پر رہنا ہو گا تاکہ کوئی دوسراڈسٹرب نہ ہو مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ میاں شہباز شریف کی ضمانت پر انکے حامی رمضان کے باوجود خوب دھوم مچائیں گے۔ ڈھول بجائیں گے۔ ان کا ناچتے گاتے استقبال بھی ہو گا۔ جب ایسا ماحول ہو تو عام آدمی بھی مست ہو جاتا ہے۔ ایسے میں اگر چھوٹے میاں جی کے اندر کا سیاستدان بھی انگڑائی لے کر بیدار ہو گیا تو کیا وہ چپ رہ سکیں گے۔ نہیں وہ پھر ازبر شدہ ایک عدد پرانا شعر سنانے اور جذبات سے مغلوب ہو کر مائیک گرانے والی سیاسی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کرینگے۔ ہمارے ہاں تو کسی بولنے والے کو دس آدمیوں میں کھڑا کر دیں وہ خود کو مقرر اعظم ثابت کرنے کے جوش میں ایسے بولتا ہے جیسے کسی تقریری مقابلے میں شرکت کیلئے آیا ہو۔ سیاستدانوں کا پسندیدہ کام ہی بولنا اور بے تحاشہ بولنا ہے۔ جب لوگوں کا اجتماع ان کی شان میں نعرے لگا رہا ہو تو دماغ کو آسمان تک پہنچنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ اس لیے لگتا نہیں کہ میاں شہبازشریف زیادہ دیر خاموش رہیں گے۔ جلد یا بدیر ان کا سائیلنٹ موڈ سپیکر میں بدل جائے گا۔ آزمائش شرط ہے۔
٭٭٭٭٭
رمضان میں بھارتی مسلمانوں کے مساجد میں عبادات پر پابندی
یہ بھارت کی عجب سیکولر پالیسی ہے کہ مسلمانوں کو عبادت کیلئے اس مقدس ماہ میں مساجد جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ۔ کرونا کے نام پر مساجد میں سوائے چند نمازیوں کے باقی مسلمانوں کا داخلہ بند ہے۔ اسی طرح کھلے مقامات پر بھی نماز تراویح ادا کرنے کی اجازت نہیں۔ خلاف ورزی کرنے پر سینکڑوں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پورے بھارت میں حکومت کی مسلم دشمنی کا مظاہرہ سب کے سامنے ہے۔ کہیں لوجہاد یعنی مسلمان کے ساتھ ہندو لڑکی کی شادی پر کہیں قرآن مجید میں جہاد کی آیات نکالنے پر کہیں آذان کی آواز پر کہیں نماز کی باجماعت ادائیگی پر شور مچایا جا رہا ہے۔ کیا یہی بھارتی سیکولرازم ہے۔ اس کے برعکس ہندوئوں کو مکمل آزادی ہے وہ جو چاہیں کریں ، جہاں چاہیں مذہبی جلوس نکالیں مذہبی اجتماعات منعقد کریں انہیں کوئی روکنے والا نہیں۔ کیا کرونا صرف مسلمانوں کی وجہ سے پھیلتا ہے جو ہندوئوں کی نسبت لاکھ درجہ پاک صاف باوضو اور محتاط ہوتے ہیں۔ کمبھ میلے میں لاکھوں ہندو گندے میلے کچیلے لباس میں بنا کسی پاکیزگی کے شریک ہوتے ہیں۔ ان میں ہزاروں کی تعداد میں برہنہ ننگ دھڑنگ نانگے سادھو بھی ہوتے ہیں جو بدن پر مردوں کی راکھ اورکیچڑ ملے ہوتے ہیں۔ لاکھوں کا اجتماع گنگا جمنا کے سنگم پر نہاتا اشنان کرتا ہے۔ کیا ان میلے کچیلے گندے لوگوں کے اس جم غفیر سے کرونا نہیں پھیلتا۔ صرف پاک صاف عبادت کی جگہ مسجد میں پاک لوگوں کے عبادت کرنے سے کرونا پھیلتا ہے۔ مذہبی تعصب اپنی جگہ ۔کم از کم بھارت کے حکمران انصاف سے ہی کام لیں۔ مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے سے گریز کریں۔ نماز اور تراویح کی ادائیگی کیلئے مسلمانوںکو کم از کم ایسی آزادی ہی دیں جیسی ہردوار میں نہانے والے لاکھوں ہندوئوں کو دی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭