قارئین آپ سب کو رمضان المبارک کی برکتوں سے اللہ پاک انتہا کا نوازے (آمین) اور یہ ماہ رمضان آپ کے اور میرے اور ہمارے گھر والوں عزیز رشتہ دار ملک و قوم کے لیے باعث رحمت ثابت ہو گو کہ ہمارے حکمران کسی نہ کسی ایشو کو مس ہینڈل کر کے ٹاپ ٹرینڈ بنا دیتے ہیں جس میں ملک و قوم دونوں نقصانات سے دو چار ٹھہرتے ہیں۔ تحریک لبیک کے مظاہرے احتجاج علامہ سعد رضوی کی گرفتاری سے شروع ہو کے جو شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں ان مظاہروں میں حکومتی نااہلی اُبھر کر سامنے آئی ہے۔
مظاہرین ملکی اہم شاہرائوں کی بندش کئے بیٹھے ہیں بلکہ عوام کی جان و مال کو نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ابھی تک سینکڑوں لوگ زخمی ہو چکے ہیں اور کئی ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔ محکمہ داخلہ کی مظاہرین سے نبٹنے کی حکمت عملی بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔
مظاہرین کے ہاتھوں شہید ہونے والے پولیس اہلکاران کے قتل کا مقدمہ تحریک پر درج کرانے کی بجائے وفاقی محکمہ داخلہ اور سینئر افسران پر ہونا چاہئے جنہوں نے مسلح و مشتعل مظاہرین کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس فورس کو حکم دے رکھا ہے کہ وہ مسلح ہوکر مشتعل ہجوم کو کنٹرول نہیں کریں گے بلکہ ڈنڈوں سے لیس ہوکر مسلح مظاہرین کا مقابلہ کریں گے۔ جس وجہ سے پولیس اہلکاران و افسران کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر عام ہورہی ہیں۔
پہلے تو حکومت کو مذاکرات کے ذریعے یہ اہم ایشو مبارک مہینے سے قبل حل کرلینا چاہئے تھا۔
اگر کسی وجہ سے حل نہ ہو سکا تو آپریشنل حکمت عملی مضبوط بنانی چاہئے تھی۔ آئی جی پنجاب انعام غنی اور سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر اس آپریشن کو بہت باریک بینی سے نہ صرف ہینڈل کررہے ہیں بلکہ خاصے اضطراب کا شکار بھی نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر پولیس اہلکاران کی شہادت اور زخمی ہونے کی خبریں ان کا مورال نیچے لانے میں کارگر ثابت ہورہی ہیں ۔
میں سمجھتا ہوں اگر پولیس کو فری ہینڈ دے دیا جائے تو وہ اس کرائسز پر جلد قابو پالیں گے۔ رینجرز کو طلب تو کیا گیا مگر ان کی حکمت عملی نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں محکمہ پولیس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کیلئے نہ صرف سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں بلکہ رات دن انتھک محنت کے بعد حالات کو کنٹرول میں لانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنے سے پیچھے نہیں رہتے۔
المیہ یہ ہے کہ پولیس کے شہداء کے بعد ان کے لواحقین خاندان کا کوئی پرسان حال نہیں رہتا۔ موجودہ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے ویلفیئر ونگ کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال کر دوبارہ۔ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر وہ بھی ایک حد تک اس کو لے کر چل سکتے ہیں۔ محکمہ پولیس کے لئے مانگے گئے فنڈ پر نہ صرف حکومت بلکہ عوام بھی انگلیاں اٹھانے لگ جاتے ہیں۔اس لئے پولیس میں عوام کی جان و مال کے تحفظ کو نبھاتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے جوانوں کے خاندانوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
حکومت کی جانب سے تحریک لبیک کے رویہ کی وجہ سے انتہائی قدم اٹھائے جانے کے بارے وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ اس تنظیم پر پابندی لگائی جارہی ہے۔
پنجاب حکومت نے وفاقی وزیر داخلہ کو دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی کی سفارشات بھجوا دی ہیں۔ تحریک لبیک کے متحرک تمام قائدین کو پہلی حکمت عملی کے طور پر گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا ہے۔
حکومت نے طے کیا ہے گرفتار ہونے والے قائدین کو ان کے آبائی اضلاع سے دور دراز کی جیلوں میں ڈالا جائے۔
امید ہے کہ آئندہ 24 گھنٹوں میں تحریک لبیک کوقابو میں رکھنے کے اقدامات مکمل کرلئے جائیں گے۔ بہت عرصہ کے بعد آخرکار شہباز شریف بھی جیل سے رہا ہوچکے ہیں۔
شہبازشریف کی رہائی سے ملک میں گرم اور تلخ سیاسی ماحول میں نرمی آنے کا امکان ہے۔ مسلم لیگ ن کو شہبازشریف لے کر آگے چلیں گے جبکہ مریم نواز کا ٹوئٹر خاموش ہونے کا امکان ہے۔
خبر ہے کہ جہانگیر ترین کے سیکرٹری نے ایف آئی اے کو لندن جائیداد کی تفصیلات جمع کروا دی ہیں۔ عمران خان نے جہانگیر ترین کا ساتھ دینے والے ساتھیوں کو ابھی تک ملاقات کا وقت تو نہیں دیا مگر رمضان میں عمران کی جانب سے برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے۔ گورنر سرور کو ٹاسک سونپا گیا ہے کہ وہ خوش اسلوبی سے معاملے کو ہینڈل کریں۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024