دنیا میں دل اور عقل کی جنگ جاری رہتی ہے،عقلمند اور بیوقوف کرہ ارض کے یہ دو نمونے اس دنیا کو لے کر چل رہے ہیں لیکن جو انسیت محبت اور انسانیت بیوقوف انسان کے دم سے ہوتی ہے عقلمند اس سے محروم ہے، پڑھنے والے سوچتے ہونگے کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی، میں نے بھی جب سوچا تو یہی سوال میرے ذہن میں اٹھا۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوتماشائے لب بام ابھی
بات عقل پر آتی تو وہ کبھی آگ میں نہ کودنے دیتی، یہ تو معصوم سا محبت بھرا دل تھا جو عقل پہ نہیں جذبات اور عقیدت پر یقین رکھتا تھا، قاری سے یہی کہنا ہے کہ بیوقوف سے مراد سچا، معصوم اور محبت بھرا انسان کا دل ہے جو آگے بڑھتے ہوئے رشتے جوڑ کے محبت کی خوشبو پھیلانے کیلئے عقل سے کبھی مشورہ نہیں کرتا، عقل تو تحقیق ہے دل ایقان ، عقل تنقید ہے دل تحسین ، عقل پرواز ہے تودل گھر گھونسلہ ہے۔ انسانی عقل نے بے شمار کارنامے نمایاں سرانجام دیئے ایٹم بم بنادیا دنیا کو ایک پل میں تباہ ہونے کا خوف عطا کردیا، عقل سے چالاکیاں سیکھیں اور حسد،بغض،نفرت کو استعمال کرتے ہوئے گھر کے گھر بھٹی میں جھونک دیے۔ عقل کا راستہ ناپتے ہوئے دوسروں کی خوشیوں سے جلتے ہوئے لوگوں کی راہ میں رکاوٹوں کے انبار لگادیئے، اپنی ایک کامیابی کیلئے یاکسی بھی چیز کے حصول کیلئے لومڑی کا دماغ استعمال کیا اور مستحق کو مفلس اور بے بس کردیا۔عقل کولے کر ذرا آگے چلیں تو بارود گولیاں، بم بنتے چلے گئے اور انسان اس کی نذر ہوتے رہے، عقل نے انسان کو کہاکہ اپنے مقاصد اور پالیسیاں تبدیل نہ کرو لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے پوسٹر بدل ڈالو، عقل نے امریکہ کو دنیا پہ حکومت کرنے کا خواب دکھایا مگر مدرٹریسا اور لیڈی ڈیانا نے دل کی صدا سنی اور دلوں پر راج کرنے لگیں۔عقل نے کہا بے بس، مفلوج اور مجبور عورتوں کا بوجھ اس دھرتی سے ختم کرنے کیلئے ان کا قتل کرو، کاروکاری رسم کی بھینٹ چڑھائو مگر اس سرزمین پہ دل نے عبدالستار ایدھی کو بے یارومددگار کا آسرا بنادیا، خواتین کا سائبان بنادیا، دل نے SOS Villagesبنا ڈالے، عقل نے قتل گاہیں، دل نے ایک روٹی ایسے بانٹی کہ سب سَیر ہوگئے، عقل نے گندم کو ذخیرہ کردیا اور اپنی چالاکیوں سے ایک عالم کو خیرہ کردیا، عقل نے مشینوں کو ترویج دی جن کا نہ پیٹ ہے نہ جن کی جان اورجن پہ موسم اثرانداز نہیں ہوتے۔
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
ثابت تویہی ہوا کہ عقل کو قبول کرنے والے دل کی سچی محبتوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ عقل کے ساتھ چلتے ہوئے انسانی رشتے ناطے نبھاتے ہیں، عقل تو اپنے مفاد کے بنا کوئی فیصلہ کرتی ہی نہیں تو رشتوں میں خلوص نہ ہو بے غرض احساس نہ ہو توپھر موتیوں کی خوبصورت مالا کیسے بنائی جاسکتی ہے۔عقل کہتی ہے کہ اس ناسور کو مرہم لگایاجائے زخم خوردہ انسان کا مسیحا بناجائے،عقل کی خودغرضی کا عالم دیکھئے کہ اپنے گھر کا کچرا گلی کی نالیوںمیں پھینک دیتی ہے مگر محبت کرنے اور انصاف کرنے والے معصوم (بیوقوف) لوگ دروازہ سے باہر کا حصہ کیا پوری گلی صاف کردیتے ہیں اگر بات حکومت کی کریں تو حکومت کو الزام تو عقل والے دیتے ہیں کہ بے روزگاری ہے، بیماری ہے، ناخواندگی ہے مگر دل یہ کہتا ہے کہ صرف اپنے اپنے سے ملحقہ گھروں اور اپنے سے جڑے ہوئے لوگوںمیں سے صرف دو گھروں کی ذمہ داریاں لے لو۔ان کے مسائل اور وسائل کی چھان بین کرکے ان کے ساتھ دلی تعلق نبھائو، احساسات کو جگائو۔ بات سے بات چلی تو ہم بھی کہتے ہیں کہ ہم ساری ذمہ داری نہ بھی اٹھائیں توتھوڑی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ہی شاید اس طرح ایک ایسی محبت کی زنجیر بن جائے گی کہ ہزارہا گھروں کے مسائل حل ہوں گے یہ بات ہے دل والوں کی، عقل کہتی ہے کہ حکمرانوں کی چاپلوسی کرو ان کے سیاہ کو بھی سفید کہو مگر دل کا ماننا ہے کہ مجھے بتائومجھ میں غلطی کیا ہے،ہمیںایک دوسرے کو یہ بتانا چاہیے کہ کہ کہاں کیا غلط ہورہاہے پھر اپنی بساط کے مطابق پہنچ کر اس کوسدھارنا چاہیے اور ا دل اور عقل کی یہ جنگ ہرصدی میں عروج پہ رہتی ہے اس میں عوام اور حکمرانوں کی بے شمار کہانیاں سامنے آتی ہیں پہلی حکومتوں نے بھی عقل مند ہونے کے دعوے کئے مگر عوام دل والوں کے دلدادہ نکلے، آج کی حکومت سے عوام کی یہ جنگ کس موڑ پہ اتحاد اور محبت کے دائرے میں داخل ہوتی ہے اس کا ابھی اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔ عقل کے دائرہ کار میں غرض مفاد پرستی، لالچ، ناانصافی کو داخل ہی نہیں ہونے دیتے وہ عقل سے دشمن کو زیر کرتے ہیں اور دل سے عوام کو تسخیر کرتے ہیں، گویا جیت ہمیشہ دل کی ہوتی ہے اور عقل تماشا دیکھتی رہ جاتی ہے۔آج کی حکومت کو بھی دماغ کی فہم وفراست اور دل کی جذباتیت کا خیال رکھتے ہوئے ملکی حالات کو سنبھالنا چاہیے تاکہ ہمارے ملک میں امن وامان قائم ہوسکے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024