جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ پھر بحال، عوام میں خوشی کی لہر
احسان الحق،رحیم یار خان
2018ء کے عام انتخابات کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار مرکز اور پنجاب میں حکومتیں سنٹرل پنجاب کی بجائے جنوبی پنجاب کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کے وزن سے قائم ہوئیںکیونکہ تاریخ میں پہلی بار سنٹرل پنجاب میں کوئی بھی سیاسی پارٹی خاص طور پر مسلم لیگ (ن)قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی اتنی نشستیں حاصل نہیں کر سکی تھی کہ جس سے وہ آرام سے مرکز اور پنجاب میں اپنی حکومتیں قائم کر سکتی لیکن حیران کن طور پر ان انتخابات میںجنوبی پنجاب میں جو ممبران قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ان میں زیادہ تر کا تعلق یا تو پی ٹی آئی سے تھا یا وہ آزاد امیدوار تھے جس کے باعث ان انتخابات کے بعد دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے جنوبی پنجاب سے آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی تاکہ انکی حمایت سے مرکز اور پنجاب میں حکومتیں قائم کی جا سکیں۔اس موقع پر اس وقت کے عمران خان کے قریبی دوست جہانگیر ترین کی انتھک کوششوں سے زیادہ تر آزاد اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی نے پی ٹی آئی کی حمایت کا فیصلہ کیا جس سے مرکز اور پنجاب میں پی ٹی آئی اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ٹھری جس کے باعث جنوبی پنجاب کے عوام میں امید کی ایک نئی کرن جاگی اور توقع کی جانے لگی وزیر اعظم عمران خان اپنے وعدے کے مطابق جنوبی پنجاب پر مشتمل ایک نیا صوبہ قائم کریں گی جس سے یہاں کے عوام کے برسوں پرانے مسائل حل ہو سکیں گے لیکن حیران کن طور پر تقریباً دو سال تک اس بارے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی جس سے عوام میں تشویش اور اشتعال پایا جانے لگا جس کے باعث جولائی2020ء میں حکومت پنجاب کی جانب سے بہاولپور اور ملتان میں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کی دو علیحدہ علیحدہ سیکرٹریٹ قائم کئے گئے اور یہاں ایک ایڈیشنل آئی جی پولیس،ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور پندرہ صوبائی محکمے قائم کر کے ان کے سیکرٹریز بھی تعینات کر دیئے گئے لیکن حیران کن طور پر بیورو کریسی حتیٰ کہ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پی کی تقرریاں اور تبادلے لاہور سے کئے جاتے رہے جس کے باعث یہ سیکرٹریٹ بے معنی سے ہو کر رہ گئے اور شائد حکومت پنجاب کو بھی اس کا اندازہ ہو گیا جس کے بعد پہلے پانچ صوبائی محکمے اس سیکرٹریٹ سے واپس لاہور منتقل کر دیئے گئے اور بعد میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری کا بھی تبادلہ کرتے ہوئے نہ صرف انکی دوبارہ یہاں تعیناتی نہیں کی گئی بلکہ گورنر پنجاب کی جانب سے ایک ہنگامی نوٹیفیکیشن کے ذریعے جنوبی پنجاب میں تعینات تمام سیکرٹریز کے اختیارات لاہور سیکرٹریٹ منتقل کر دیئے جس سے پورے جنوبی پنجاب میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہو گئی اور اس فیصلے نے ان تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا جس یہاں کے عوام نے وزیر اعظم عمران خان سے باندھ رکھیں تھیں۔جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ عملاً ختم کرنے کے فیصلے نے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو بھی کھل کھیلنے کا موقع مل گیا جس سے پورے جنوبی پنجاب میں ایک مایوسی کی لہر بھی دیکھنے میں جسے شائد فوری طور پر بھانپ لیا گیا اور ’’صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہنا چاہیئے‘‘کے مصداق حکومت پنجاب نے فوری طور پر نہ صرف گورنر پنجاب کی جانب سے جاری ہونے والا نوٹیفیکیشن واپس لے لیا بلکہ ایدیشنل چیف سیکرٹری کی بھی دوبارہ تعیناتی کر دی جس سے پورے جنوبی پنجاب میں جہاں خوشی کی لہر دیکھی جا رہی ہے وہاں عوام پنجاب حکومت سے اب یہ توقع بھی کر رہے ہیں کہ اس سیکرٹریٹ کو اب پورے اختیارات کے ساتھ بحال ہونا چاہیئے تاکہ یہاں کے عوام کے مسائل اسی سیکرٹریٹ میں حل ہونے سے وزیر اعظم عمران خان کے صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام والا وعدہ کسی حد تو پورا ہو سکے۔یہاں کے عوام وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے توقع کر رہے ہیں کہ یہاں سے واپس لاہور واپس منتقل ہونے والے پانچوں صوبائی محکمے دوبارہ یہاں منتقل کئے جائیں بلکہ جنوبی پنجاب کی تمام بیورو کریسی کی تقرریاں اور تبادلے اسی سیکرٹریٹ سے کئے جائیں یہاں یہ سیکرٹریٹ مکمل طور پر فعال ہونے سے نئے صوبے کے قیام میں حائل تمام رکاوٹیں بھی دور ہو سکیںتاہم بعض آئینی ماہرین کے مطابق بغیر قانون سازی کے نہ تو کوئی سیکرٹریٹ قائم کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سیکرٹریٹ سے متعلق اخراجات کو کوئی قانونی شکل دی جا سکتی ہے اس کے لئے پنجاب اسمبلی سے سادہ اکثریت سے قانون سازی کر کے ہی نیا سیکرٹریٹ قائم کیا جا سکتا ہے جس کے بعد دو تہائی اکثریت سے نئے صوبے بارے بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔
جیساکہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ ملکی سیاست میں اب جنوبی پنجاب کا ایک اہم کردار ابھر کر سامنے آ رہا ہے جس کا ایک اور عملی مظاہرہ گزشتہ ہفتے کے دوران وزیر اعظم عمران خان کے ناراض دوست جہانگیر ترین کی جانب سے دیئے گئے عشایئے میں رحیم یار خان سمیت جنوبی پنجاب سے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی کثیر تعداد سے لگایا جا سکتا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق اس عشایئے کے سیاسی اثرات اصل میں آئندہ عام انتخابات کے موقع پر سامنے آئیں گے جب جہانگیر ترین اپنے ہم خیال اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈرز کی حمایت سے ایک نیا سیاسی گروپ تشکیل دیں گے جس کا آئندہ عام انتخابات میں کردار انتہائی اہم ہو گا۔خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جہانگیر ترین کے وزیر اعظم عمران خان سے اختلافات جو شوگر سکینڈل کی تحقیقات کے موقع پر سامنے آئے تھے اس کا جہانگیر ترین کو بہت رنج تھا کیونکہ انکے خیال میں اس سکینڈل میں80سے زائد شوگر ملز ملوث تھیں لیکن فرانزک آڈٹ صرف انکی ملز کا کرنے کے ساتھ ساتھ انکا میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا جس پر اطلاعات کے مطابق سینٹ کے حالیہ انتخابات میں انہوں نے اپنا سیاسی وزن عمران خان کے امیدواروں کی بجائے کسی اور پارٹی کے امیدوار کے حق میں استعمال کیا جس کا بڑا ثبوت انکی شوگر ملز کا ایک ہوائی جہاز اس امیدوار کے حق میں اپنی اڑانیں بھرتا رہاجس کا عمران خان کو بہت رنج تھا ۔جہانگیر ترین آئندہ عام انتخابات میں کیا رنگ دکھاتے ہیں یہ تو آئندہ عام انتخابات میں ہی پتا چل سکے گا لیکن خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب میں عمران خان کو اپنی بقاء کی جنگ جہانگیر ترین کے بغیر لڑنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدے ابھی تک پورے نہیں کر سکی جس میں خاص طور پر نئے صوبے کا قیام شامل ہے جبکہ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ ابھی تک مکمل فعال نہ ہونے سے بھی یہاں کے عوام میں تشویش دیکھی جا رہی ہے۔وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو چاہیئے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق رحیم یار خان سمیت پورے جنوبی پنجاب کے لئے فوری طور پر نئے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھیں تاکہ یہاں کہ عوام میں کچھ اعتماد آنے سے آئندہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی ایک بار پھر یہاں سے بھر پور کامیابی حاصل کر سکے۔