رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا ہے آج دوسرا روزہ ہے۔ کیا ہمیں یہ احساس ہے کہ زندگی کا ایک بہترین دن گذر گیا ہے یہ لمحات دوبارہ ایک سال بعد آئیں گے۔ ہمیں رمضان المبارک کے ایک ایک لمحے کو قیمتی جان کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم کوشش کریں گے تو کامیابی ملے گی۔ ہمیں نیکیوں کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اس جذبے کو سارا سال برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت آج ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم اپنی مذہبی بنیاد سے ہٹے ہوئے ہیں، دنیا کی دوڑ میں اصل زندگی سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کامیابی صرف اور صرف بنیاد پر قائم رہتے ہوئے ہی مل سکتی ہے اور بنیاد کو مضبوط کرنے کا وقت رمضان المبارک سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ جتنی فضیلت اس ماہ مبارک کی ہے اگر ہم صرف اسے ہی جان جائیں تو ہر وقت سجدے میں رہیں کوئی دوسرا کام ہی نہ کریں۔ میری کوشش ہے کہ روزانہ ماہ مبارک کی برکات اور اس کی اہمیت کو اپنے قارئین تک پہنچاؤں یہ کوشش صرف اور صرف اس ماہ مبارک سے بہترین انداز میں فائدہ اٹھانے کے لیے تیار کرنے کے لیے ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آدم کے بیٹے کا نیک عمل کا اجر جتنا اللہ چاہے بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ اس سے مستشنی ہے‘ کیونکہ وہ میرے لئے ہے۔ اور میں بھی اس کی جزا دوں گا۔
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔ حضرت سہل بن سعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جنت میں ایک دروازہ ہے‘ جس کا نام ریان ہے۔ روز قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے‘ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے قبضہ میں محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جان ہے۔ روزہ دار کے منہ کی ہوا اللہ کے نزدیک یوم قیامت مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں پس ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک ندا دینے والا پکارتا ہے، اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا، اور اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ماہ مبارک کا حق ادا کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
ختم نبوت، ناموس رسالت میری زندگی ہے، میں میرے اہل و عیال، میری مال و دولت اور میری ہر چیز ختم نبوت اور ناموس رسالت پر قربان ہے۔ میں اس عقیدے کے ساتھ اپنا ہر سانس لیتا ہوں، میں دنیا کا وہ خوش قسمت ترین انسان ہوں جو اس ایمان کے ساتھ پیدا ہوا اور آج تک اس پر قائم ہے اور آخری سانس تک اللہ کی رحمت سے قائم رہے گا اور میری آنے والی نسلیں بھی س پر قائم رہیں گی کہ ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن الرسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شیء علیما۔
انا خاتم النبیین لا نبی بعدی
اس کے باوجود یہ سمجھتا ہوں کہ گذشتہ دو روز سے ملک امن و امان کے شدید مسائل سے دوچار تھا۔ کچھ شک نہیں کہ سڑکوں پر جو ہوا اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان ہمارا مان ہیں، ان کی قربانیوں کی بدولت ہم پرامن اور آزاد فضاؤں میں سانس لیتے ہیں، انہیں پر حملوں اور تضحیک کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ مظاہرین نے جو کچھ گذشتہ دو روز میں ملک کی سڑکوں پر احتجاج کے نام پر کیا ہے اس احتجاج سے سب سے زیادہ نقصان نعوذ باللہ ختم نبوت کے عظیم مقصد کو ہوا ہے۔ کون لوگ تھے جنہوں نے اس عظیم مقصد کو پرتشدد بنایا اور پھر ریاست کو انتہائی قدم اٹھانا پڑا، یوں وہ لاکھوں کروڑوں لوگ جو ختم نبوّت کے عظیم مقصد کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع تھے انہیں مختلف نظر سے دیکھا جانے لگا۔ اس احتجاجی لہر کا سب سے بڑا نقصان یہی ہے۔ یہ جس نے بھی کیا، جیسے بھی ہوا ہے یہ اس عظیم مقصد کو نقصان پہنچانے کے لیے کافی ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی اس عظیم مقصد کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ہر کوئی اپنی حیثیت، اپنی طاقت میں رہتے ہوئے ناموس رسالت اور ختم نبوت کے لیے کام کرتا ہے لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مقصد نہیں کہ اپنے ہی ملک کو میدان جنگ بنا دیا جائے، اپنے ہی پولیس اہلکاروں کو اغوا کر لیا جائے، اپنے ہی محافظوں کا خون بہایا جائے، اپنی املاک کو تباہ کیا جائے، آگ اور خون کا کھیل کھیلا جائے۔ ہم اتنے ظالم کیسے ہو سکتے ہیں کہ اپنے بھائیوں کا راستہ روکیں، اپنے مریضوں کی ادویات روک لیں، اپنے بزرگوں کو اذیت دیں۔ تمام مذہبی جماعتوں کو یہ سبق ضرور سیکھنا ہو گا کہ پاکستان کے عوام کبھی ناموس رسالت اور ختم نبوت پر کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے اگر اس نازک اور حساس ترین معاملے ہر کبھی کوئی شرارت کی کوشش بھی ہوتی ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جاتا ہے اور سخت ترین ردعمل دیا جاتا ہے اور یہ ہر سطح پر ہوتا ہے۔ حکمرانوں کو بھی یہ سبق ضرور سیکھنا چاہیے کہ اس حوالے سے بالخصوص پارلیمنٹ کے اندر بھی کوئی شرارت نہیں ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت ہو یا پھر پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں ہو یا پھر تحریکِ انصاف حکومت میں ہو یا کوئی اور حکومت ہو ختم نبوت اور ناموس رسالت پر واضح اور دو ٹوک موقف ہی اختیار کرنا چاہیے۔ ہمیں اس سلسلے میں کسی ہے دباؤ میں آنے کی بھی ضرورت نہیں ہے اور اپنے لوگوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے غیر حقیقی وعدے کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جس طرح قانون توڑا گیا ہے، آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا ہے دنیا میں ہمارا کیا پیغام گیا ہے۔ ذرا ہم بین الاقوامی میڈیا دیکھ لیں کہ دنیا ہمارے بارے کیا بات کر رہی ہے، دنیا ہمارے بارے کیا لکھ رہی ہے، دنیا ہمارے بارے کیا سوچ رہی ہے۔ ہمیں اس پہلو پر بھی سوچنا چاہیے۔ ہمیں کن حالات کا سامنا ہے کیا اندرونی طور پر ہم اتنی بڑی تباہی کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی نسلوں کو پکا اور سچا مسلمان بنانے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ جان کی پرواہ کیے بغیر نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی والہانہ محبت میں سڑکوں پر نکلتے ہیں ان کی اس محبت کو درست سمت میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کی تربیت کرنی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں عملی زندگی گذارنے کے پیغام کو آگے بڑھانا ہے۔ ہمیں مسلکی اختلافات میں بھی برداشت اور تحمل مزاجی کی ضرورت ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے اور ہمیں آگے بڑھنے کے لیے سوچ کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں حقیقت پسندانہ سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔
ہمارا حال تو یہ ہے رمضان المبارک کی آمد پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں بیپناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ سبزیاں اور پھل عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئے ہیں۔ مرغی کے گوشت کی پرواز بہت اونچی ہو چکی ہے، لیموں مہنگا ہوتا جا رہا ہے کچھ پتہ نہیں کہ نایاب بھی ہو جائے، کوئٹہ میں آٹا اور چینی کی قلت کا سامنا ہے، لاہور میں چینی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ مجھے حکومت سے کوئی اچھی امید تو نہیں لیکن پھر بھی خواہش ضرور ہے کہ کم از کم رمضان المبارک کے دوران ہی عام آدمی کے لیے کوئی آسانی پیدا ہو جائے۔ بہرحال اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024