بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم راہنما اور راجیہ سبھا کے رکن سبرامنیم سوامی نے امریکی ٹی وی چینل وائس نیوز کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ مسلمان، ہندوؤں کے برابر ہے نہ مساوی حقوق کے حق دار ہیں۔ اس نے کہا کہ اگر کسی ملک میں مسلمانوں کی آبادی 30 فیصد سے زیادہ ہو جائے تو وہ ملک خطرے میں ہے۔ اس پر وزیراعظم عمران خان نے ردعمل میں کہا کہ یہودیوں کے خلاف جیسے نازی بولتے تھے، اب بی جے پی ایسے بات کر رہی ہے۔ پاکستان کے سیاسی اور مذہبی راہنماؤں نے بھی بی جے پی کے راہنما کے بیان کی مذمت کی ہے۔
بھارتی مسلمانوں نے بھی سبرامنیم سوامی کے بیان کے خلاف اخبارات میں لکھا ہے۔ بھارت میں شہریت کا ترمیمی قانون شہریوں میں خوف و ہراس کی وجہ بنا۔ اس کے ردعمل میں مسلمانوں کا مسلسل احتجاج جاری ہے۔ بھارت کے ایک مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر عوامی جلسے میں مسلمانوں کے خلاف نعرے لگواتا ہے ’’دیش کے غداروں کو، گولی مارو سالوں کو‘‘ ایک بھارتی ممبر پارلیمنٹ پر دیش کمار سرعام احتجاجی عورتوں کو دھمکیاں دیتا ہے۔ ’’تمھاری بہنوں اور بیٹیوں کو اٹھا لیں گے‘‘ گاندھی کے دنیا سے چلانا کر دینے والے دن پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر سترہ سالہ لڑکے رام بھگت گوپال نے دلّی پولیس کے عملے کی موجودگی میں ایک جواں سال مسلمان سکالر شاداب فاروقی پر پستول سے گولی چلائی۔ دوسرے دن ہندو مہاسبھا نے گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈلے کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اس حملہ آور لڑکے کو سچا وطن پرست قرار دیا۔
مرکز کے دستوری ترمیم ایکٹ اور این آر سی قانون کا نفاذ نہ کرنے کے لیے بھارت کے چار صوبے اپنی اسمبلیوں میںریزولیوشن منظور کرواچکے ہیں۔ مرکز سے صوبوں کا یہ ٹکراؤ دستوری بحران کی راہیں کھول سکتا ہے۔ فرقہ وارانہ صورت حال اور برباد معیشت فوری تدارک چاہتی ہے۔
بھارتی اخبارات لکھتے ہیں کہ اگر این آر سی زمینی کاغذات کی بنیاد پر ہو، جیسا کہ آسام میں ہوا تو دس کروڑ ایسے مسلمان ملک بدر کر دئیے جائیں گے جو صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔ یہ نتیجہ نکالا جا رہا ہے کہ یہ آر ایس ایس کا بہت پرانا ایجنڈا تھا کہ بھارت مسلمانوں سے پاک ہو۔ آج بی جے پی اسی ایجنڈے پر سی اے اے اور این آر سی کی شکل میں عمل کر رہی ہے۔
قارئین کو بتاتا چلوں کہ این آر سی دراصل نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ کا مخفف ہے۔ جسے آپ قومی شہری رجسٹر کہتے ہیں۔ سی اے اے Citizenship Amendment Act کا محفف ہے۔ اردومیں ا سے شہری ترمیمی قانون کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں قانون زیادہ وقفہ کے بغیر بھارتی پارلیمنٹ سے پاس ہو چکے ہیں۔
سی اے اے دراصل این آر سی کا پیش خیمہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے جو بھی غیر مسلم 2014ء سے پہلے ہندوستان میں آ کر پناہ گزیں ہوئے، انھیں شہریت دینا ہے۔حالیہ لوک سبھا انتخابات کے موقعہ پر ایک سے زائد مرتبہ بھارتی وزیر داخلہ کہہ چکا ہے کہ این آر سی سے پہلے سی اے اے لایا جائے گا۔ سی اے بی جو بھارتی صدر کے دستخط کے بعد سی اے اے بن چکا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مذکورہ تین ممالک سے جتنے غیر قانونی، غیر مسلم پناہ گزیں ہوں گے، پہلے انھیں سی اے اے کے ذریعے ہندوستانی شہریت دی جائے گی، اس کے بعد این آر سی نافذ ہو گا۔ جس کے کاغذات مطلوبہ معیار کے نہ ہوں گے، اسے درانداز یا گھس بیٹھیا مان کر حراستی مراکز (Detention Centers) میں ڈال دیا جائے گا۔ ایسی صورت میں یہ حراستی مراکز صرف مسلمانوں کے لیے ہوں گے۔ سی اے اے کا مقصد غیر مسلم طبقہ کو صاف بچا لیناہے۔ جہاں تک این آر سی مسلمانوں کو ہونے والے نقصانات کی بات ہے تو بقول ایک بھارتی صحافی کے، مسلمانوں کے لیے این آر سی تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ جب ایک دو ماہ کے دستاویز بڑی مشکل سے مل پاتے ہیں تو 1951ء تک کے کاغذات کہاں سے لائے جائیں گے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی آزمائش یہ ہو گی کہ غریب مسلمان جب شہریت ثابت کرنے سے قاصر ہوں گے تو حراستی مراکز کی عقوبتوں سے بچنے کے لیے وہ خود کو غیر مسلم ظاہر کریں گے۔ آر ایس ایس کا یہ منصوبہ ہے کہ کسی طرح مسلمانوں کو ان کے مذہب سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا جائے۔
ایک بھارتی قلم کار نے لکھا ہے کہ این آر سی ملک سے مسلمانوں کے صفایا کا بھارتی منصوبہ ہے۔ اس بات کو اس نے اعداد و شمار سے ثابت کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے شہروں اور دیہات میں 15 فیصد سے زائد لوگوں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے۔ وہ برسوں سے یا تو PWD کی زمین پر یا پھر WASTLANDS پر رہ رہے ہیں اگر این آر سی زمینی کاغذات کی بنیاد پر ہو، جیسا کہ آسام میں ہوا تو دس کروڑ ایسے مسلمان ملک بدر کر دئیے جائیں گے جو صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں۔یہ ایک اندازہ ہے۔ ممکن ہے کہ غیر کاغذاتی زمینوں پر رہنے والے مسلمانوں کی تعداد 60 یا 70 فیصد کو پہنچ جائے۔ پھر سوچئے کہ کتنے لوگ نکالے جائیں گے۔ یہ ہے آر ایس ایس کا پرانا ایجنڈا جس پر آج بی جے پی عمل کر رہی ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024