پیر ‘ 9 ؍ شعبان المعظم ‘ 1440ھ‘ 15؍ اپریل 2019ء
آصف زرداری مولانا فضل الرحمن کی
عیادت کیلئے ان کے گھر پہنچ گئے
اول تو یہ بات ہی بڑے اچنبھے کی ہے کہ مولانا صاحب کی طبیعت ان کے پرانے قریبی دوست آصف زرداری کے گھر میں کھانا کھانے کے بعد خراب کیسے ہوئی۔ مولانا نے پہلی مرتبہ تو آصف زرداری کے طعام کا لطف نہیں اٹھایا وہ پہلے بھی زرداری صاحب کے دستر خوان کے خوشہ چیں رہ چکے ہیں تو پھر یہ گزشتہ روز
’’ظالم نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘
والی حالت کیوں ہو گئی۔ مولانا ویسے بھی خوش خوراک میں۔ صرف مولانا فضل الرحمن ہی کیا ملک بھر کے تمام مولانا حضرات خوش خوراک بھی ہیں اور واعظ خوش بیاں بھی۔ معدہ پُر ہو تو زبان میں چاشنی خود بخود آ جاتی ہے۔ ورنہ مشہوربات ہے ایک بھوکے سے کسی نے پوچھا ایک اورایک یعنی 1+1 کتنے ہوتے ہیں۔ اس بھوکے نے تُرت سے جواب دیا دو روٹیاں‘‘۔ لگتا ہے اس وقت مولانا ٹینشن میں ہیں۔ وہ حکومت کو للکار چکے ہیں اسلام آباد پر چڑھائی کا اعلان کر چکے ہیں مگر ان کے سابق حلیف پیپلز پارٹی والے اور مسلم لیگ (ن) اس طرح ساتھ نہیں دے رہے جس طرح مولانا چاہتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ دو جماعتیں کھل کر مولانا کا ساتھ دینے کا اعلان کرتی ہیں تو ان کیخلاف شکنجہ اور کستا چلا جائے گا۔ ابھی تو بات چیت پر ہی دونوں جماعتوں کی پیشیاں اور گھروں پر چھاپے بڑھ گئے ہیں۔ حمایت کے اعلان کے بعد تو ضمانتیں ملنی بھی مشکل ہوں گی۔ ڈاکٹر کہتے ہیں جب ذہن پریشان ہو تو معدہ پر برا اثر ہوتا ہے۔ اسی ذہنی خلجان کی وجہ سے مولانا کی طبیعت خراب ہوئی انہیںچکر اور قے آئے۔ اس کا کوئی اور مطلب لینے کی ضرورت نہیں…
٭٭٭٭٭
پشاور میٹرو بس کے انڈر پاسزتلے گیس پائپ لائن کا انکشاف
پشاور میٹروبس نہ ہوئی شیلا کی جوانی ہو گئی جو کسی کے ہاتھ نہیں آ رہی۔ اگر دنیا کا کوئی آٹھواں، نواں یا دسواں عجوبہ ہے تو وہ پشاور میٹرو بس کا منصوبہ ہے۔ لاہور کی میٹرو کو جنگلا بس سروس کہنے والوں نے نجانے کیوں اس کی بدتعریفی کرنے اس میں کیڑے نکالنے کے باوجود کس لیے پشاور میں میٹرو بس المعروف جنگلا بس کا منصوبہ منظور کیا اور اسے شروع بھی کیا۔کہتے ہیں ’’نانی نے خصم کیا برا کیا کر کے چھوڑا اس سے برا کیا‘‘ اب یہ منصوبہ شروع کر ہی دیا ہے تو خدارا اسے مکمل بھی تو کریں۔ اس کے اخراجات میں کئی ارب روپوں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس منصوبے کے لیے قرضہ دینے والے ملک تک رو رہے ہیں پچھتا رہے ہیں کہ ہم نے جس منصوبہ کودیکھ کر مدد کی تھی یہ منصوبہ اس کے برعکس ہے۔ پے درپے ترمیم کر کے اس کی اصل صورت بگاڑ دی گئی ہے۔ اب پتہ چلتا ہے کہ اس کے انڈر پاسز سے گزرنا محال ہے وہاں ہر وقت گیس کا اخراج رہتا ہے۔ کہتے ہیں اس کے نیچے سوئی گیس کی پائپ لائن ہے۔ حکومت نے اسے یہاں سے دو ر لے جانے کے منصوبہ کے لیے پیسے نہیں دئیے تھے۔ ہو سکتا ہے حکومت خیبر پی کے کو پورا یقین ہو کہ میٹروبس لائن کے نیچے گیس کا اخراج اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں گیس کا ذخیرہ ہے اس لیے وہ اسے کھود کر گیس دریافت کرنے کے کسی بڑے منصوبہ پر رقم خرچ کرنے کی سوچ رہی ہو۔ لوگ تو ویسے ہی ذرا ذرا سی بات پر پریشان ہو جاتے ہیں…
٭٭٭٭
پی ایم ہائوس کا کاٹھ کباڑ بھی نیلام کیا جائے
کہتے ہیں سنیاروں کے اڈوں اور نالی کی مٹی بھی فروخت ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کو بھی چھان کر لوگ اس میں سے سونے کے ذرات جمع کر کے فروخت کرتے ہیں۔ اسی طرح اب وزیراعظم ہائوس کے کاٹھ کباڑ کے نام پر جو کچھ نیلام ہو گا وہ بھی لاکھوں کروڑوں کا مال ہو گا جو کاٹھ کباڑ کے نام پر پی ایم ہائوس کے رازداروں نے اپنوں کے ہاتھوں کوڑیوں کے مول فروخت کر کے دونوں ہاتھوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ پی ایم ہائوس کے مطابق یہ کاٹھ کباڑ صرف پرانے ٹائروں وغیرہ پر مشتمل ہے۔ ٹائر اور ٹیوب کو نکال کر اگر صرف وغیرہ وغیرہ میں پرانی بیٹیریاں، یو پی ایس، جنگلے ، گلدان، ٹوٹیاں، نلکے، فرنیچر ، میز کرسیاں، برتن، چمچے بھی شامل کئے جائیں تو اندازہ کر لیں یہ مہنگے داموں خریدا گیا پرانا سامان بھی کتنی مالیت کا ہو گا۔ عام گھروں کا کاٹھ کباڑ ہزاروں میں فروخت ہوتا ہے تو یہ خاص الخاص گھر سے وزیراعظم کا گھر ہے۔ جہاں کی عام معمولی چیز بھی کم از کم ہزاروں روپے مالیت کی ہوتی ہے۔ ترجمان کے مطابق یہ اشیاء جلد نیلام ہوں گی۔ نیلامی بھی اچھا لفظ ہے۔ ہمارے ڈکشنری میں من پسند ٹھیکہ دار من پسند ریٹ طے کر کے ٹینڈر بھرتے ہیں اور نیلامی میں حصہ لیتے ہیں یا لوگ ازخود من پسند افراد کو طلب کر کے نیلامی کا کھیل کھیلتے ہیں اور یوں یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہو جاتا ہے۔ بہرحال اب دیکھنا ہے پی ایم ہائوس میں نیلامی کب ہوتی ہے ا ور کتنے میں ہوتی ہے اور اس سے خزانے میں کتنی رقم جمع ہوتی ہے۔ ورنہ آج تک کبھی پی ایم ہائوس کی ناکارہ اشیاء کی نیلامی کا سنا نہیں تھا۔ شاید پہلے بھی ہوتی ہو گی…یا ہو سکتا ہے اس کی نوبت ہی نہ آتی ہو اور اکثر وزرائے اعظم یہ اشیاء خود ملازمین کو بخشش میں دیتے ہوں…
٭٭٭٭
کچے کے علاقے میں پولیس کی پیشقدمی جاری
ڈاکو فرار ہونے میں کامیاب
کچھ دنوں قبل پولیس نے بکتر بند گاڑیوں اور بھارتی اسلحہ کہ ساتھ کچے میںڈاکو گروپوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ حیف صدحیف اتنے دن گزرنے کے بعد ابھی تک کسی بھاگتے ہوئے بیمار یا بوڑھے ڈاکو تک کو پولیس والے پکڑ نہ سکے۔ بس خبر یہ آتی ہے کہ پویس کی پیشقدمی جاری ڈاکوئوں کے کئی ٹھکانے مسمار کر دئیے۔ اصل بات یہ ہے کہ وہاں موجود ڈاکو بھاری اسلحہ سمیت کہاں گئے۔ اگر کچے کے علاقے کو محاصرہ میں لیا ہوا ہے۔ دریائی اطراف پر بھی پولیس موجود ہے تو ان ڈاکوئوں کو کیا آسمان نے اٹھا لیا ہے یا زمین نے نگل لیا ہے۔ یا ان کے سر پرست انہیں سرمہ بنا کر آنکھوں میں ڈال کر نظر بچا کر لے گئے ہیں۔ اس کا جواب بھی تو کوئی دے۔ الٹا اب پولیس بھاری مشینری کی مدد سے جنگلات کا صفایا کر رہی ہے۔ پہلے ہی کون سے جنگلات بچے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں کہ اب پولیس ٹمبر مافیا کا کام بھی انجام دینے لگی ہے۔ محکمہ جنگلات کو چاہئے کہ وہ ان جنگلات کو بچانے کے لیے فوری ایکشن لے۔ اس علاقہ میں عمرانی لٹھانی، سکھانی اور اندھڑ گروپ نے اندھیر نگری مچا رکھی ہے۔ گرانا ہے تو ڈاکوئوں کو مار گرائیں درختوں نے کیا کیا ہے۔ ڈاکوئوں کو تلاش کریں وہ کہاں گئے ہیں کس کس کے پروں تلے چھپے ہوئے ہیں۔ ورنہ آپریشن کے بعد ایک بار پھر وہ یہاں آن د ھمکیں گے اور جنگل میں منگل برپا کریں گے۔لوگ ڈاکوئوں کی نعشیں گننا اور دیکھنا چاہتے ہیں۔