حضرت سید یعقوب شاہ زنجانیؒ
ایم اشرف بٹ
نور اسلام کی تعلیمات سے لوگوں کے دلوں کو منور کرنے اور ظلمت کدہ لاہور میں گھر گھر اللہ کا پیغام پہنچانے کیلئے حضرت یعقوب شاہ زنجانی حضرت سید ابو الفضل ختلی پیر مرشد حضرت داتا گنج بخش کے حکم پر اپنے برادر حقیقی سید میراں حسین شاہ زنجانی کے ہمراہ لاہور میں تشریف لائے۔
آپ حضرت سید میراں حسین زنجانی کے حقیقی بھائی اور عمر میں حضرت سید موسیٰ زنجانی سے بڑے تھے آپ کی ولادت 356ھ میں زنجان میں ہوئی۔ آپ کے والد حضرت سید علی محمود کے دوسرے بھائیوں کی طرح آپ کو ابتدائی دینی تعلیم گھر پر ہی دی اور زنجان کے امام مسجد سے عربی اور فارسی کی تکمیل ہوئی۔ آپ کے والد بہت بڑے عالم اور زاہد و عابد بزرگ تھے۔ ایک روایت کے مطابق20سال کی عمر میں آپ نے فقہ، حدیث اور تفیر کی تعلیم مکمل کر لی تھی۔ حضرت سید یعقوب زنجانی کی اپنے والد بزرگوار کے دست حق پر بیعت کا حوالہ حدیقتہ الاولیاء اور تحتۃ الابرار میں بھی ملتا ہے چنانچہ ان کتب میں لکھا ہے کہ آپ نے پہلے اپنے والد گرامی سید علی موسوی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ کے والد ماجد کو موسوی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایک روحانی بزرگ حضرت سید موسیٰ کے مرید تھے۔ حضرت سید یعقوب زنجانی نے اپنے والد کے زیر سایہ منازل سلوک طے کیں۔ کافی عرصہ ذکر و فکر ریاضت نفس اور مراقبہ میں مصروف رہے اور علوم باطنی سے بہرہ ور ہونے کے بعد والد بزرگوار سے خلافت عطا ہوئی۔ والدین کی خدمت کے دوران آپ خاندانی جاگیر کے انتظام میں بھی اپنے والد بزرگوار کا ہاتھ بٹاتے رہے
آپ کے والدین حضرت سید محمود زنجانی موسوی کا مزار آج بھی زنجان(ایران) کے قبرستان میں مرجعہ خلائق ہے۔ اپنے والد محترم اور حضرت سید میراں حسین شاہ زنجانی کی اجازت سے بعد میں آپ نے حضرت ابو الفض ختلی کے دست مبارک پر بیعت کی اور دونوں بھائیوں کو حضرت ختلی نے بغداد میں خرقہ، خلافت عطا فرمایا۔
آپ نے حضرت سید میراں حسین زنجانی اور اپنے چھوٹے بھائی حضرت سید موسیٰ زنجانی کے ہمراہ 357ھ بمطابق 997ھ زنجان سے لاہور تک کا طویل سفر طے کیا اور بمعہ اہل و عیال تمام تکالیف رضائے الٰہی کی خاطر بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔لاہور میں تشریف لانے کے بعد اپنے بڑے بھائی حضرت سید میراں حسین زنجانی کی ہدایت کے مطابق آپ نے شہر لاہور کے جنوبی علاقے میں سکونت اختیار کی۔ یہ یہی علاقہ بعد ازاں شاہ عالمی کے نام سے مشہور ہوا۔ آپ نے شروع شروع میں محنت مزدوری کو ذریعہ معاش بنایا۔ آپ صاحب شرع بزرگ تھے اور ظاہری شریعت کے سختی سے پابند تھے۔ آپ لوگوں کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آتے تھے۔ اس لئے بہت سے لوگ آپ کے اخلاق صالح کے گرویدہ تھے۔ ہندوئوں کو مسلمان بنانے کیلئے آپ نے ہندی زبان سیکھی۔ آپ کے اخلاق حسنہ سے متاثر ہو کر بے شمار ہندوئوں نے اسلام قبول کیا۔
مصائب زدہ ہندو آپ کی خدمت میں حاضر رہتے اور سب کی مرادیں پوری ہو جاتیں جس سے آپ کی بزرگی کا چرچا ہونے لگا۔
ہر مذہب کے بے شمار لوگ روزانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے روحانی فیض و برکت کی بدولت اسلام کی روشنی سے اپنے قلوب منور کرتے۔ چنانچہ اس شمع معرفت کی کرنوں کی روشنی اور چمک سے لاہور کی ظلمت کفر و شرک ختم ہونا شروع ہو گئی اور ہزاروں ہندوئوں نے آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کر لیا۔
آپ کے زمانے میں غزنوی حکومت کی طرف سے راجہ باہلم لاہور کے صوبے کا گورنر تھا۔ راجہ باہلم نے ناگوار کی ریاست پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت شاہ صدر دیوان زنجانی کی خدمت میں حاضری دی اور فتح نصیب ہوئی۔ آپ کی شادی 20 سال کی عمر میں ابو محمد کی بیٹی سے ہوئی۔ جو آپ کے والد کے چچا سید عبداللہ اسحاق کے فرزند تھے۔ اس عفیفہ کا اسم گرامی زینب تھا جس کے بطن اطہر سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام سید قاسم تھا۔ انہیں سے لاہور میں سادات زنجانیہ کے سلسلے کا آغاز ہوا۔ آپ نے 460ھ میں وفات پائی اور آپ کی قیام گاہ ہی میں آپ کو دفن کیا گیا جہاں آجکل آپ کا مزار مبارک موجود ہے۔ تحقیقات چشتی میں آپ کی وفات کا سن بحوالہ سفینۃ الاولیاء 604ھ درج ہے۔
موجودہ سرائے رتن چند کے گرد و نواح میں سکھوں کے عہد میں قبرستان کی حد بہت دور تھی۔ احاطہ مزار کی قبروں کے علاوہ یہاں داروغان مہاراجہ رنجیت سنگھ اور قاضیان لاہور کے قبرستان بھی تھے۔ قبر پر سنگ مرمر کا تعویز تھا اور ایک طرف نشست گاہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کی تھی جو آج تک موجود ہے۔ جہاں انہوں نے اعتکاف کیا تھا۔
حضرت شاہ صدر دیوان زنجانی کا مزار مبارک اب نظروں سے بالکل پوشیدہ ہے۔ لیڈی ایچی سن ہسپتال کے دروازے سے مشرقی جانب تھوڑے سے فاصلے پر ایک پریس میں سے ایک چھوٹی سی تنگ گلی گزرتی ہے جو سیدھی خانقاہ شاہ صدر دیوان پر جا کر ختم ہوتی ہے۔
محرابی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب اعتکافیہ حجرہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ہے۔ خواجہ صاحب جب دوسری مرتبہ لاہور تشریف لائے تو انہوں نے آپ کے مزار پر چلہ کشی کی۔ حضرت شاہ صدر دیوان زنجانی کے مزار سب سے پہلے 1940ء میں ایک عقیدت مند تاج دین ولد فضل دین کشمیری نے تعمیر کروایا تھا۔ آپ کے مزار کے ساتھ جو چار قبور ہیں ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ایک قبر آپ کے صاحبزادے حافظ سید محمد قاسم زنجانی اور ایک قبر آپ کی زوجہ محترمہ بی بی زینب کے علاوہ دو قبریں آپ کے بھتیجوں کی ہیں۔ مزار کی حالت برسوں انتہائی مخدوش رہی لیکن بعد میں سجادہ نشین پیر سید محمد ادریس شاہ زنجانیؒ اور پیر سید صداقت شاہ زنجانی کے زیرنگرانی درگاہ شریف کی بحالی و ترقی پر لاکھوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔
عرس کے موقع پر ہر سال 16 اور 17 رجب کو نماز فجر کے بعد سجادہ نشین کے صاحبزادے سید ہاشم علی شاہ زنجانی کی زیرقیادت مزار شریف کو غسل دیا جاتا ہے جس میں ہزاروں عقیدت مند شامل ہوتے ہیں۔ درگاہ کچھ فاصلہ پر ایک فری مدینہ ڈسپنسری بنائی گئی ہے اس کے علاوہ لڑکیوں کے لیے دینی مدرسہ اور دستکاری سکول بھی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ آپ کا 1015 واں عرس مبارک 3، 4 اپریل کو منایا جاتا ہے۔