اچھی قیادت کی پہلی سیڑھی
مسلم لیگ کا نام پاکستان بننے سے بہت پہلے ایک سیاسی جماعت کے حوالے سے برصغیر پاک و ہند میں اپنی پہچان بنا چکا تھا۔ مسلم لیگ کی بحیثیت ایک سیاسی جماعت تاریخ شاندار اور باوقار رہی ہے۔ سیاسی افق پر کامیابی اور کامرانیاں مسلم لیگ کے مقدر میں رہیں۔ نیشنل کانگریس سے اختلافات اور نظریاتی ڈیفرنس کے سبب محمد علی جناح کو برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندہ جماعت کی ضرورت محسوس ہوئی تو مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی۔
پاکستان بن جانے کے بعد بھی مسلم لیگ ہی ملک کی واحد عوامی نمائندہ جماعت رہی‘ لیکن آزادی کے حصول کے کچھ عرصہ بعد ہی مسلم لیگ کے اندر توڑ پھوڑ پیدا ہو گئی اور موقع پرستوں نے مسلم لیگ کی عوامی نمائندگی کی صلاحیت کو ذاتی مفاداتی طرز جماعت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ مسلم لیگ کے اندر اسی وقت توڑ پھوڑ پیدا ہو گئی تھی جب محترمہ فاطمہ جناح کو محمد علی جناح کی جماعت مسلم لیگ کی صدارت سے حیلے بہانے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ مادر ملت کو مسلم لیگ کی بنیادی قیادت سے کارنر کرنے سے ہی تخلیق پاکستان کی معتبر سیاسی جماعت مسلم لیگ کے اندر ایسی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی کہ اس کے حصے بخرے ہونے لگے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ٹکڑوں میں بٹ کر تحریک پاکستان کی ضامن محمد علی جناح کی سیاسی اعلیٰ قیادت‘ ایمان‘ اتحاد و تنظیم کی وارث یہ مسلم لیگ اپنی روح سے جدا ہو گئی ہے۔
ایک مسلم لیگ کی کئی مسلم لیگیں بن گئیں۔ آبروئے صحافت جناب مجید نظامی مرحوم و مغفور نے اپنی زندگی میں لیگیوں کو یکجا کرنے کی بے حد کوشش کی۔ انہوں نے لیگیوں کو اصل مسلم لیگ کا آئیڈیل بھی یاد کرایا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی جماعت مسلم لیگ کا اپنے محور اور مقصد سے پھر جانا بھی آشکار کیا اور بارہا لیگیوں کو اقبال کی ترجمانی میں صداقت کا‘ امانت کا اور شجاعت کا سبق بھی یاد کرایا تاکہ لیگی امامت کا حق پہچان سکیں۔ افسوس جناب مجید نظامی مرحوم و مغفور کے بعد اب مسلم لیگ کو اکٹھا کرنے کی سعی کوئی نہیں کرے گا اور نہ ہی کر رہا ہے‘ تاہم یہ امر تو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے مسلم لیگ فنکشنل مسلم لیگ (ق) یا مسلم لیگ (ن) ٹکڑوں میں بٹ جانے کے بعد اپنی ہیئت ہی نہیں بلکہ اپنی اوریجنل حیثیت بھی کھو گئی ہے۔مفادات کی عینک اتار کر معاملات کی حقیقت جان کر اگر آج بھی مسلم لیگ کے وہ مقاصد جو برصغیر پاک و ہند کی تحریک پاکستان کے مقاصد تھے جو ہم نے اپنے سیاسی شعار سے نکالے رکھا تو پھر یہی ہوگا اور ہوتا رہے گا جوکہ 28 جولائی ساڑھے گیارہ بجے سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہوا۔ صداقت و امانت کا سبق بھلانے سے کوئی صادق و امین کب رہتاہے؟ کہیں غم و الم ہو یا کہیں مٹھائی بٹے ہر حال میں ملک کی ضرورت صداقت‘ امانت و دیانت ہے اور ہمیں سیاسی رنگ بازیوں‘ آہوں اور بھنگڑوں کے آئینے میں نہیں بلکہ ملک کی سیاسی صورتحال‘ ملک کے استحکام اور نظام کی عملی درستگی کا سوچنا ہے۔ کسی ملک کے ایسے سربراہ کا عدالت عالیہ کی طرف سے نااہل قرار پانا کہ جس نے عنان اقتدار سنبھالنے کے تین مواقع حاصل کئے ہوں کوئی چھوٹا واقعہ نہیں۔ اس وقت منتخب حکومت کے اہلکار ہی نہیں بلکہ نظام انتخاب ووٹر‘ سپورٹر‘ سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتیں بلکہ یہ پوری کی پوری قوم کا پوسٹ مارٹم ہے۔ ہم اپنی نسلوں کو کیا ڈیلیور کر رہے ہیں۔ سول حکومتوں کے ایسے مخصوص مزاج مارشل لاءایڈمنسٹریشن کو تقویت دیتے ہیں بلکہ ہمارے سول نظام کے سقم ہماری عسکری طاقت کو سیاسی مداخلتوں کے راستے دیتی رہی ہے‘ لیکن بابائے قوم وطن عزیز کو جمہوری ملک دیکھنا چاہتے تھے۔
بابائے جمہوریت جناب مجید نظامی نے لنگڑی و اپاہج جمہوری حکومت کو فوجی حکومت سے بہتر گردانا تھا۔ پھر بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر ہم وطن عزیز پر اقتصادی‘ سماجی و تہذیبی‘ مالی و سیاسی شب خون مارنے کی اجازت کیسے دیدیں۔ یہ آج کا واقعہ نہیں‘ میری پاک دھرتی کے نظام سلطنت میں ایسا ہوتا آیا ہے۔ خواجہ ناظم الدین برطرف ہوئے۔ محمد علی بوگرہ سے زبردستی استعفیٰ لیا گیا۔ چودھری محمد علی سے استعفیٰ لیا گیا۔ حسین شہید سہروردی سے استعفیٰ لیا گیا۔ محمد خان جونیجو برطرف ہوئے۔ بینظیر بھٹو بھی برطرف ہوئیں۔ ظفر اللہ جمالی سے استعفیٰ لیا گیا۔ یوسف رضا گیلانی کو عدالتی برطرفی ملی اور آج میاں محمد نوازشریف عدالتی حکم سے نااہل ہو گئے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہمارے حکمران جو جمہوری حکومت کے استحکام کے امانتدار بتائے جاتے ہیں‘ نااہلی و ناگوار بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں یا کہ ہمارا سماجی و سیاسی ماحول ہی ایسا ہے کہ یہاں کسی کا ٹکنا ممکن ہی نہیں؟ دونوں صورتوں میں ہمارا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ کیا ایک نوازشریف کے چلے جانے سے ملک کے اندر امن‘ اقتصادی خوشحالی اور عوامی زندگی پُرسکون ہو جائے گی؟
ذرا سوچئے ہمیں اگر ملک بچانے کا نعرہ لگانا ہے‘ وطن عزیز کو کرپشن سے پاک کرنے کا دعویٰ کرنا ہے۔ عوامی درد سے نظام سلطنت کی بنیاد رکھنی ہے تو ہمیں ہر اس فتنے کو کچلنا ہوگا جو دھرتی ماں کی ہوا کو بھی میلا کرے اور یہ کام بڑے دل جگر کیا ہے۔ اس عظیم کام کیلئے ہمیں صرف نوازشریف کو نہیں بلکہ پوری پارلیمنٹ بلکہ اگلی پچھلی تمام پارلیمنٹس‘ سول و فوجی سب کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔ صادق و امین تلاش کریں۔ ہم مایوس نہیں۔ ہمارے پاس صادقین کی کمی تو نہیں ہاں البتہ سیاست صادقین و مومنین کیلئے شجر ممنوعہ بن چکی ہے۔
سیاستدان و جرنیل سب آزمائے جا چکے.... نظام سلطنت نہ بدلا.... اس وقت مسلم لیگ (ن) کو صدمہ ہے‘ لیکن ملک کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے فرشتوں کی کھیپ موجود نہیں بلکہ تیار بھی نہیں جو میرے ملک پاک کو روشنیوں‘ خوشبوﺅں‘ جگمگ تاروں اور گل و گلزاروں کا مسکن بنا دیں میرے ملک کو استحکام‘ خوشحالی اور امن کا گہوارہ بنا دیں۔ آنے والی نسلوں کیلئے محمد علی جناح اور اقبال کے خوابوں اور افکار کا عملی درس بنا دیں۔ تبدیلی کیسے آئے گی؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ چلا جائے گا نوازشریف تو پھر نہ آئیں گے یہ نوازشریف؟ اور جو گئے تھے کیا وہ نہ تھے نوازشریف؟ آنے والے الیکشن شفاف ہونگے تو ہم اچھی قیادت کے حصول کے سفر کی پہلی سیڑھی چڑھ سکیں گے۔