بھارت میں بڑھتی انتہا پسندی .... (6)
جن سنگھ کی شکل میں سیاسی پارٹی بنانے کے بعد، آر ایس ایس نے دیگر تنظیمیں بنانے پر توجہ دینی شروع کر دی۔ سب سے پہلے اس نے کالج اور یونیورسٹیوں میں کام کرنا شروع کیا اور اس کیلئے 1948ءمیں آل انڈیا سٹوڈنٹس کونسل کی بنیاد رکھی۔ اس کا پہلا ہدف سوشلسٹ اور کمیونسٹ اثرات کا مقابلہ کرنا تھا۔ 1955ءمیں بھارتی مزدور سنگھ کی بنیاد رکھی گئی جس کا کام مزدور یونینز میں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنا اور ہندو قوم پرستی کا پرچار کرنا تھا۔ علاوہ ازیں اس کے سپرد یہ کام بھی سونپا گیا کہ طبقاتی کشمکش قومی تعمیر کے کام کو متاثر نہ کرے۔ آر ایس ایس نے مخصوص طبقات کو بھی منظم کرنے کا کام شروع کیا۔ 1952ءمیں ایک تحریک ”مرکز فلاح قبائل“ کے نام سے شروع کی جس کا ہدف عیسائیوں کے دعوتی کام کو روکنا تھا جو وہ سرحد پر واقع قبائلیوں اور اندرون ملک انتہائی پس ماندہ مقامی آبادیوں میں کر رہے تھے اور جہاں تبدیل مذہب کے واقعات بھی ہو رہے تھے۔ اس تنظیم نے اسی جوش و جذبہ سے کام کیا جو مشنری حضرات میں پایا جا تا ہے اور ان کے کام سے متاثر ہو کر کچھ لوگ ہندومت میں واپس لوٹ آئے۔
تنظیمات کی تشکیل میں سب سے بڑا اور مو¿ثر کام اس وقت شروع ہوا جب 1964ءمیں ہندو وشوا پریشد (VHP) کی بنیاد ڈالی گئی۔ یہ تنظیم ہندومت کے مختلف فرقوں کے لیڈرز کو جمع کرنے کا عمل تھا۔ اس کے پیچھے جو سوچ کارفرما تھی وہ یہ احساس تھا کہ اتنے متنوع، متضاد اور بکھرے ہوئے مذہب میں مرکزیت پیدا کی جائے۔ جیسا ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، آر ایس ایس بنانے والوں کا مذہب اور اس کی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ وہ تو ایک تنگ نظر، نسل پرست اور مغرب اور اسلام سے خوفزدہ اور ان سے نفرت کرنے والے طبقے کی خواہش تھی کہ کسی طرح وہ اس مذہبی ٹوٹ پھوٹ کا شکار آبادی کو ایک وحدت میں پرو دیں۔ اس کے بعد 1977ءمیں ودیا بھارتی ) (Knowledge Indiaکے نام سے ایک اور ذیلی ادارہ بنایا جس کا کام آر ایس ایس کے ماتحت چلنے والے تمام سکولوں کو ایک مرکزی نظم کے تحت جوڑ دینا تھا۔ یہ وہ تنظیم ہوگی جو آگے چل کر جب جب آر ایس ایس کو حکومت کرنے کا موقع ملے گا تو وہ نصاب تعلیم میں اپنی پسند کی تبدیلیاں کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گی اور آج کئی ریاستوں میں اس کا تجویز کردہ نصاب رائج ہے۔ 1979ءمیں ایک اور ادارہ تشکیل دیا گیا جس کا نام ”سیوا بھارتی“(Service Indian)ہے اس کا مقصد کچی آبادیوں میں سماجی اور فلاحی کاموں کے جال کو بچھانا ہے (مثلاً مفت تعلیم، صحت اور دیگر سہولتیں)۔
ان تمام سرگرمیوں کا ایک ماسٹر تنظیم کے ماتحت منظم کرنا اور چلانا ایک بڑے نظم و ضبط اور ایک بڑی اور بے لوث افرادی قوت کا متقاضی ہے جو اب تک آر ایس ایس مہیا کرتی آ رہی ہے۔ ان اداروں کی جس انداز میں نظریاتی تشکیل کی گئی ہے وہ ان کے درمیان ایک خاندانی رشتے کی مانند ہے لہٰذا ان کے مجموعے کو “ سنگھ پریوار” کا نام دیا گیا ہے۔
آر ایس ایس کو ایسے لیڈرز میسر آتے رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس کام پر لگا دیں۔ ایسی ایک شخصیت بلراج مدہوک (1920ئ-2016ئ) کی ہے جس نے سٹوڈنٹس کونسل کی بنیاد رکھی۔ مدہوک کا اصلی تعلق گوجرانوالہ سے تھا لیکن ان کے والد لداخ میں نوکری کے سلسلے میں قیام پذیر تھے جہاں اسکردو کے علاقے میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کا خاندان آریا سماج کا ہمدرد تھا۔ انہوں نے سرینگر اور لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ بعدازاں اس نے جموں و کشمیر میں ایک سیاسی پارٹی بنائی جو ہندو قوم پرست خیالات کی حامل تھی۔ تقسیم کے موقع پر اس نے شیخ عبداللہ، نہرو معاہدے اور آرٹیکل 370 کی مخالفت کرتے ہوئے پوری ریاست جموں اور کشمیر کو یکجا کرکے ہندوستان میں شمولیت کا مطالبہ کیا، جس پر شیخ عبداللہ نے اس کے جموں کشمیر میں رہنے پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد مدہوک دہلی منتقل ہوگئے۔ وہاں اس نے نہ صرف کونسل کی بنیاد رکھی بلکہ ایک انگریزی رسالہ “آرگنائزر” بھی شائع کرنا شروع کر دیا جس کے وہ مدیر بھی تھے۔ وہ تاریخ کے استاد تھے اور دہلی کے مقامی کالج میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے بھارتی جن سنگھ کے تاسیسی کام میں مکھرجی اور اپادیائے کیساتھ مل کر کلیدی کردار ادا کیا۔
مدہوک ایک قدآور نظریاتی شخصیت کے حامل تھے اور اپادھیائے کے ساتھ ملکر آر ایس ایس کی فکر اور سوچ کو آگے بڑھانے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگر اول الذکر نے تنظیم کو نچلی سطح پر منظم کرنے کا کام کیا تو آخر الذکر نے ان نظریات کی تشکیل کی جو ہندو قوم کی تعمیر کیلئے ضروری ہیں۔ خصوصاً اس نے‘ اقلیتوں کے معاملے میں کیا کیا جانا چاہیے‘ کی وضاحت کی۔ اس کا کہنا ہے کہ “اس ملک کو مسلمانوں کا جو مسئلہ درپیش ہے وہ کانگریس کا پیدا کردہ ہے۔ خصوصاً موجودہ قیادت کا جس کے اس سے سیاسی مفادات وابستہ ہیں، بالکل اسی طرح جیسے انگریز نے وابستہ کرلیے تھے۔ اگر کانگریس کی لیڈرشپ نے تقسیم سے سبق سیکھ لیے ہوتا، اور اگر وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہوتی، تو وہ مسلمان آبادی کو مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ سیاست سے دور رکھنے کے اقدامات کرتی.... وہ ان کے درمیان ایک محب وطن لیڈرشپ پیدا کرسکتی تھی اور ان کو قومی دھارے میں شامل کرلیتی۔ لیکن اس نے اس کے برخلاف کام کیا اور ان کے ذہنوں میں قوم پرست قوتوں کی طرف سے ایک انجانا خوف پیدا کیا مثلاً جن سنگھ کی طرف سے۔ اور یہ اہتمام کیا کہ وہ کانگریس سے جڑے رہیں جس کیلئے مسلمانوں سے ایسے وعدے کیے مثلاً متعدد شادیوں کو جاری رکھا جائے گا، غیر ضروری طور پر مسلم علیگڑھ یونیورسٹی کی تعمیر نو، بغیر اس کی تنظیم نو، اس کی فرقہ پرست اور قوم مخالف حیثیت کو بدلے۔ ان تبدیلیوں کے بغیر مسلمانوں کی حمایت کرکے کانگریس نے اسلام کو جدیدیت کی طرف مائل ہونے سے روک دیا۔
”مذہبی فرقہ پرستی کے خلاف کانگریس اور کمیونسٹ پارٹیوں نے جس مہم کا آغاز کر رکھا ہے وہ درحقیقت مسلمانوں کی فرقہ پرستی کو اپنی حق میں بدلنے کیلئے ہے۔ اس کا فرقہ پرستی کے خاتمے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا مقصد اقلیتوں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنا ہے۔ یہ اقلیت اور اکثریت کی بحث وزیر اعظم (اندرا گاندھی) نے خود شروع کی ہے۔ لہٰذا فرقہ پرستی کے، جو بھارتی قوم کیلئے شدید خطرہ ہے، خاتمے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اسے سیاست سے نکال دیا جائے.... حکومت کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی خوشنودی اور انکے ووٹوں کی خاطر ملکی قانون پامال نہیں کرے اور ایک شادی کے عام قانون کو تمام شہریوں پر بلا امتیاز نافذ کرے۔ مسلمانوں کی خوشنودی کی کوششیں اسی ڈگر پر چل رہی ہیں جو تقسیم سے پہلے جاری تھیں اور جس کے تباہ کن نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ مسلم لیگ اور مجلس مشاورت کے لیڈرز کو یہ باور کرایا جائے کہ ان کی جداگانہ سیاست اور فرقہ پرستی خود ان کےلئے سودمند نہیں ہے۔ لیکن جب تک انھیں یہ یقین ہوگا کہ انکی جداگانہ سیاست اور فرقہ پرستی پر انتہا پسندانہ اصرار انھیں انعام دیتا رہیگا، وہ اپنی روش نہیں بدلیں گے۔ بدقسمتی سے گزشتہ پچاس سالہ تاریخ نے اس لیڈرشپ کو اور پاکستان کی لیڈرشپ کو یہی سکھایا ہے کہ ”ہندوو¿ں کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ دانشمندانہ روش ہے“ ۔
مدہوک کے نظریات کی یہ ادنیٰ سی مثال ہے۔ اسے اس نظریے کا بانی کہا جاتا ہے کہ اس نے کس طرح اقلیتوں کو ایسا طرز عمل اختیار کرنے کا مشورہ دیا جو ان کی ہندو معاشرے میں موجودگی کو قبول کرنے کیلئے ضروری ہے۔ اسے بھارتیت Indianization کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان کا معاملہ ہو، یا مغلیہ عہد کی تاریخ، وہ ہر معاملے میں مسلمانوں کو ایک نئی روش اختیار کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ ایک طرف وہ سیکولرازم کا علمبردار ہے تو دوسری طرف وہ ہندو مذہبی مقامات کے تقدس کا نقیب ہے، لیکن مسلمان اگر اپنے کسی مقدس مقام کی بے حرمتی کا گلہ کریں تو اس کو اس میں فرقہ واریت کی بو آتی ہے۔ یہ نظریات وہ ہی ہیں جن کا پرچار آر ایس ایس کے دیگر لیڈرز کرتے آئے تھے یعنی اقلیتوں کو اس سرزمین پر رہنے کی صرف اس صورت میں اجازت ہوگی جب وہ اکثریتی ثقافت اور اقدار کی عزت اور تکریم کرنے پر راضی ہوں اور اپنی جداگانہ حیثیت کو منوانے پر اصرار نہ کریں۔
1967ءمیں جب اسے جن سنگھ کی قیادت ملی تو اس نے پہلی مرتبہ کانگریس کو اس بڑی کامیابی سے محروم کردیا جو وہ ماضی میں حاصل کرتی آئی تھی۔ وہ خود بھی لوک سبھا کا ممبر منتخب ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے قیادت دین دیال اپادھیائے کو منتقل کردی۔ 1968ءمیں اپادھیائے کم عمری میں اور پراسرار حالات میں انتقال کرگیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی جن سنگھ میں قیادت کے جھگڑے شروع ہوگئے جو دو دہائیوں تک چلتے رہے۔ [جاری ہے]