لوڈشیڈنگ کی واپسی ،حکومتیں کمزور،انتظامی امور ٹھپ!
یوں لگتا ہے کہ پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کی بحالی ہوگئی ہے۔جیسے ہی درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوا ہے ، ویسے ہی بجلی نے گھروں سے غائب ہونا شروع کردیا، بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ شہروں سے بھاگنا شروع کردیا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ بجلی سپلائی کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ بجلی کی کوئی کمی نہیں۔صلاحیت موجود ہے کہ جو ملک کی ضروریات کو مکمل طور پر پورا کر سکے۔اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار بڑھانے کے لیئے پاور پلانٹس بھی موجود ہیں۔ ابھی تک کوئی ایسی خبر بھی نہیں آئی ، جس سے یہ پتہ جس چلتا ہو کہ بھارت کی سازش کی وجہ سے دریاوں میں پانی کم ہو گیا ہو اور بڑے بڑے ڈیم اس قابل نہیں رہے کہ بجلی پیدا کرسکیں۔ لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے مثال کے طور پر کراچی جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے جسے کوئی عروس البلاد تو کوئی منی پاکستان کہتا ہے۔جہاں پاکستان کے ہر صوبے اور ہر شہر اور گاوں سے اکر لوگ آباد ہوئے ہیں۔اس شہر کو عجیب سے سوال جواب کا سامنا ہے۔ شہر کو بجلی سپلائی کرنے کی ذمہ دار کے۔الیکٹرک ہے۔ جو چین کی ایک کمپنی ہے۔کے الیکٹرک کا کہنا یہ ہے کہ اس کا پیداوار،تقسیم اور ترسیل کا نظام بہترین ہوچکا ہے جس کے حصول کیلیئے اس پر اربوں روپے لگائے ہیں۔کمپنی کے پاور پلانٹ بھی صحیح حالت میں ہیں۔اس بار لوڈ شیڈنگ گیس کی فراہمی میں کمی کی بنا پر ہے ۔ گیس کمپنی کا کہنا ہے کہ کے الیکٹرک کو گیس کی بلاتعطل فراہمی صرف اس وقت ممکن ہو سکتی ہے جب اس کے ذمے اربوں روپے کی واجبات کی ادا کئیے جائیں ۔دوسری طرف کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ حکومتی محکموں کی جانب سے واجبات ادا نہیں کیئے گئے ہیں۔اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ یہ واجبات ادا ہوں اور وہ اس رقم کی ادائیگی گیس کمپنی کو کریں اور پھر گیس کی مطلوبہ فراہمی بحال ہو۔ ہمیں کے الیکٹرک کے نکتہ نظر سے کوئی ہمدردی ہے نہ ہی وکالت کرنا چاہتے ہیں کہ کراچی کے 2 کروڑ عوام کو بجلی ملتی رہے جس کا تعلق واجبات کی ادائیگی سے جڑا ہوا ہے۔جیسا کہ کہا گیا کہ کے الیکٹرک ایک چینی کمپنی کے پاس ہے جس کا تعلق شنگھائی الیکٹرک کمپنی سے ہے جو چین کا ایک نامور ادارہ مانا جاتا ہے۔اگر ہم کے الیکٹرک کو الزام دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ چین کی کمپنی میں وہ اہلیت نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرسکے۔ چینی کمپنیاں دنیا بھر میں نہ صرف کام کر رہی ہیں۔چین کا انتظامی معاملات میں ایک بڑا نام ہے۔اسی لیئے گوادر پورٹ کو چلانے کی ذمہ داری بھی چین کو دی گئی ہے۔ سی پیک کی پشت پناہ قوت بھی چین ہی ہے۔ یہ مشکل لگتا ہے کہ چینی کمپنی ناکام ہے یا وہ شہریوں کے خلاف کسی سازش میں مصروف ہے۔دوسرے الفاظ میں اس کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر جاتی ہے کہ وہ یہ واجبات کا مسلہ مناسب طریقے سے حل نہیں کرپائی۔جیسے کہ کہا جارہا ہے کہ زیادہ تر واجبات تو حکومتی اداروں کے ادا نہیں کیئے گئے۔افسوس، پورا ملک گورننس کے بحران کا شکار ہے۔ لوڈشیڈنگ تو اس کا ایک ذیلی حصہ ہے۔لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ منتخب حکومتیں کس لیئے وجود میں آتی ہیں؟۔عوام کو سہولتیں فراہم کرنے کے لیئے یا اپنی ذمہ داری کا الزام اپنے ہی زیر انتظام عوامی سہولت پہنچانے والے اداروں پرلگانے کیلئے؟۔ کے الیکٹرک اگر کام نہیں کررہی تو اس کا تعین کرنا کس کا کام ہے؟۔۔اس کا حل اسمبلیوں میں طے ہونا چاہیئے! ،صوبائی کابیینہ یا عوام کو سڑکوں پر نکل کر احتجاج کے ذریعے حل کرانا چاہیئے؟۔ کیا ابھی تک صوبائی حکومت کو اتنا بھی احساس نہیں کہ لوڈشیڈنگ کا اثر صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ لوگ دفتر دیر سے پہنچتے ہیں۔یا گھروں میں گرمیوں کی دہائی دے رہے ہوتے ہیں۔بلکہ اس کے اثرات مجموعی طور پر ملکی معیشت پر پڑتے ہیں۔یہ بات بڑی مضحکہ خیز لگے گی کہ ہم بجلی کی اہمیت پر ایک مضمون لکھ دیں۔بچہ بچہ اسے خوب سمجھتا ہے اگر نہیں سمجھ رہا کوئی تو وہ حکومتیں ہیں۔لوڈ شیڈنگ ختم ہوجاتی ہے اور کچھ عرصے کے لیئے لوگ مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔لیکن پھر اچانک یہ اتنے زور و شور سے نمودار ہوتی ہے کہ لوگ 12 سے 14 گھنٹے اس کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔ساری شہری سہولتیں ،یا پیداواری معا ملا ت ٹھپ ہوجاتے ہیں۔کراچی جیسے بڑے شہر میںجس وسیع پیمانے پر اس لوڈ شیڈنگ کے نقصانات ہوتے ہیں اس کا اندازہ اربوں یا کھربوں روپوں میں ہی لگایا جاسکتا ہے۔ملک میں یہ کھیل تماشہ بھی عام ہوچکا ہے کہ سیاسی جماعتیں لوڈ شیڈنگ کو مورد الزام ٹھرا کر دوسری جماعتوں کو اپنی کامیابی کے قصے سناتے ہیں۔اس وقت ملک کے صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکمتیں ہیں جس میں پی ٹی آئی ،ن لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعتیں شامل ہیں۔ دنیا بھر میں ملک کے بنیادی مسائل پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہوتا ہے اور طویل مددتی پالیسی کے تحت تسلسل سے عمل کرتی رہتی ہیں تاکہ ایسے عوامی مسائل کو ہمیشہ کے لیئے ختم کرکے دوسرے ترقیاتی معملات پر توجو دے سکیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں روز بیانات جاری کرنے والے بڑے بڑے لیڈر لوگوں کی تکالیف کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان کے حل کے لیئے کوئی کام نہیں کرتے۔کھینچا تانی کی سیاست ایک دوسرے پر الزامات لگانا۔دوسروں کا کام نہ کرنے دینا۔یہ سیاسی جماعتوں کا ہی نہیں بلکہ اب اداروں کا وطیرہ بنتا جارہا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے کاموں میں تو ٹانگ اڑا رہے ہیں لیکن اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں اگر لوڈ شیڈنگ اگر بار بار بھی بحال ہوتی رہے تو کیا حیرت کی بات ہے۔ بیچارے عام لوگ تو رو پیٹ کر صبر کرنے کے عادی ہوہی چکے ہیں۔