’’ انگور کھٹے ہیں‘‘
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ ایک خود غرض اور مفاد پرست معاشرہ ہے یہاں پر لوگ اس محاورے پر پورا عمل کرتے ہیں اپنے مطلب اور کام نکلوانے کے لیئے گدھے کوبھی باپ بنالیتے ہیںاورکام کام نکلتے ہی باپ کو بھی گدھا سمجھنے لگتے ہیں ہمارے معاشرے میں مفاد پرستی کاجادو سر چڑ ھ کر بول رہاہے یہاں تک کہ پر سگے رشتے دار کئی کئی ماہ تک ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے البتہ اگر کسی کو اپنے کسی عزیز سے کوئی کام پڑجائے توپھر کام نکلو انے کے لئے یاجب تک کام ہو نہ جائے تومتعلقہ شخص کئی ماہ تک اپنے عزیز کاپیچھا نہیں چھوڑ تا ہردوسرے دن اپنے مطلوبہ عزیز کے گھر جاپہنچتا ہے جب تک کام نہیں ہوجاتا وہ مسلسل اپنے عزیز کے گھر کے چکر کاٹتا رہتا ہے اورجیسے ہی اس شخص کاکام ہوجاتا ہے وہ اپنے عزیز کے گھر سے ایسے پھرتا ہے جیسے کعبے سے کافر پھر جاتا ہے پھر توُکون اور میں کون والا معاملہ ہو جاتا ہے اسی طرح یہ معاملہ بھی بڑ اعجیب وغریب ہے کہ اگر کسی شخص کاکہیں رشتہ طے ہوتے ہوتے ختم ہو جائے تووہ آدمی کھیسا ناہوکر بولتا ہے ’’ یار میں تو خود اس رشتے پر راضی نہیں تھا سنا ہے لڑکی صحیح نہیں ہے چلو اچھا ہواانہوں نے خود ہی منع کردیا ہے ‘‘ یہ درحقیقت انگور کھٹے ہیں والی کہاوت کی عملی تصویر ہے کہ لڑکی والوں نے رشتے سے منع کردیا تو آپ نے فوراً خود کو شرمندہ ہونے سے بچانے کے لئے لڑکی پرہی تہمت لگادی یادرکھیئے کسی شریف لڑکی کے کردار پر تہمت یا بہتان لگانا نہایت سنگین گناہ ہے جس کی آخرت میں کڑی سزا ملے گی اس سے بہترہے کہ آپ کوئی ایسا عذر تراشیں کہ لڑکی بھی مفت میں بدنام نہ ہو اورآپ کوبھی اپنے دوستوں اورعزیزوں میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے مثلاً ’’ یار لڑکی والے ایک سال ٹھہر نے کابول رہے تھے اورمیر ی والدہ جلدی کررہی تھیں ہوں یہ رشتہ ختم ہوگیا‘‘ انگور کھٹے ہیں کا معاملا اوربھی کئی جگہوں پردیکھا اورسنا جاسکتاہے مثال کے طورپر کسی شیخی خور نے دوستوں میں یہ مشہور کر رکھا ہوکہ ’’ میر ی جلدی کسٹم میں ملازمت ہو نے والی ہے ‘‘ لیکن جب کئی ماہ تک اس شیخی خور ے کی کسٹم میں نوکری نہ لگے اور یار دوست اس کا مذاق اڑانے لگیں تووہ شیخی خورہ منہ بناکر ایسے بات بنائے گا ’’ ابے بھائی میری تو کسٹم میں نوکری پکی تھی اور بس مجھے تقرری کالیٹر ملنے ہی والا تھامگرابا نے منع کردیا کہ کسٹم میں حرام کی کمائی بہت ہے لہٰذا بھائی میں نے یہ نوکری نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا اب کوئی اپنا ہی بزنس کرونگا یہ سب سے اچھا رہے گا ‘‘ جی ہے ناں یہ انگور کھٹے ہیں والی مثال جواس شخص پر بالکل فٹ بیٹھتی ہے مردوں کی طرح خواتین میں بھی یہ مثال یا کہاوت عام طور پر پیش آتی ہے جیسے کوئی خاتون اپنی کسی سہیلی کے ساتھ بازار شاپنگ پرگئی وہاں اسے کوئی سوٹ پسند آگیا لیکن دکان دار نے اس سوٹ کی قیمت کم نہ کی تو خاتون غصے سے وہ سوٹ دکان پر پھینکتے ہوئے اپنی سہیلی سے بولے گی ’’ چلو آگے چلتے ہیں بیکار سوٹ ہے کپڑا بھی بس ایویں ہی ہے اور رنگ تودیکھو کتنا گہرا ہے اور مجھے گہرے رنگ بالکل بھی پسند نہیں ہیں تم تو جانتی ہی ہو‘‘ دیکھا آپ نے ایسے ہی انگور کھٹے ہوتے ہیں بس جب انگور ہاتھ نہ آئیں توکھٹے ہی ہوتے ہیں ہمارے ملک کے بعضے سیا ستدان بھی ہرا لیکشن میں بھاری اکثریت سے جیتنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور جب الیکشن میں ہار جاتے ہیں تو دھاندلی ہوئی ہے دھا ندلی دھا ندلی کاشور مچا کریہ اعتراف کرتے ہیں کہ’’ اقتدار کے انگور کھٹے ہیں ‘‘ بات یہ ہے کہ انسان کے نصیب میں جو چیز لکھی ہوتی ہے وہ اسے ملکر رہتی ہے اورجوچیز مقدر میں نہیں ہوتی وہ نہیں مل پاتی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کوصبر اورشکر کرنے کاحکم دیاہے لہٰذا انسان کواپنی قسمت پرشاکر رہتے ہوئے مقدر کوبہتر بنانے کے لئے کوشش کے ساتھ دعا بھی کرنی چا ہئیے کیونکہ دعاسے تقدیر بدل جاتی ہے خصوصاً ماں باپ کی دعائیں اولاد کے حق میں جلد قبول کی جاتی ہیں ہم کوچاہیئے کہ جوہمارے پاس ہے اس پر اللہ کاشکر بجا لائیں اورجونہیں ہے اس پر صبر کریں تاکہ کسی بھی معاملے میںہم کو ’’ انگور کھٹے ہیں ‘‘ کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔