پڑھے لکھے جاہل
پچھلے وقتوں میں لوگوں، بالخصوص بادشاہوں کو دوسروں کو پرکھنے کے لیئے عجیب عجیب سوجھتی تھی۔سچ جھوٹ پرکھنے کی ہمیں کیا ضرورت جب کہ ہمیں ایک موضوع مل رہا ہے۔ اس لیئے دروغ بر گردن راوی ( ہم راوی نہیں لکھاری ہیں )۔۔ایک بادشاہ کو شوق ہوا کہ شہر میں اندھوں کی تعداد معلوم کی جائے۔فوراً وزیر دانا کو یہ کام سونپ دیا۔وزیر کو یہ معمولی کام ناگواار تو گذرا ، مگر حکم حاکم تھا کیا کرتا۔چوراہے پر میز کرسی لگا کر بیٹھ گیا اور ایک رجسٹر میں اندھوںکے اندراج کی تیاری کر لی لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ ایک دو اندھے فقیروں کے علاوہ کوئی نہیں آیا۔۔دوپہر گذری تو ترکیب سوجھی۔ اور رجسٹر پر جھک کر انہماک سے الٹی سیدھی لکیریں لگانے لگا۔اتنے میں کوتوال شہر کا گذر ہوا تو اس نے پوچھا ’’ حضور یہاں کیا کر رہے ہیں‘‘ ۔وزیر نے جواب دینے کی بجائے کوتوال کا نام رجسٹر میں درج کر لیا۔۔شام تک کئی اور ملاقاتی آئے اور استفسار کیا لیکن انہیں بھی کوئی جواب نہیں دیا اور انکا نام بھی رجسٹر میں لکھ لیا۔لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا تو بادشاہ کو خبر کی کہ وزیر موصوف چوراہے میں بیٹھے ہیں اور کچھ لکھتے جاتے ہیں کسی سوال کا جواب بھی نہیں دیتے۔بادشاہ نے دریافت حال کے لیئے خود جانا پسندکیا۔جاتے ہی پوچھا ’’ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں‘‘۔ وزیر نے کوئی جواب نہیں دیا اور بادشاہ کا نام بھی لکھ لیا۔بادشاہ جز بز ہوا اور رجسٹر لے لیا۔ دیکھا اور ناموں کے ساتھ اس کا نام بھی لکھا ہوا ہے۔۔پوچھا یہ کیا ہے تو جواب دیا’’ آپ کے حکم کے مطابق اندھوں کی فہرست‘‘ ۔بادشاہ نے کہا اس میں کئی افسران، وزرا اور عمائدین شہر کے ساتھ ہمارا نام بھی کیوں؟۔۔ اطمینان سے بولا ’’ جناب میں بیٹھا لکھ رہا ہوں یہ سب آکر پوچھتے ہیں ’’ کیا کر رہے ہو‘‘ تو میں نے ان کا نام اندھوں میں لکھ لیا کہ انہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ میں کچھ لکھ رہا ہوں‘‘۔۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ بادشاہ جانے یا وزیر موصوف لیکن یہ ثابت ہو گیا کہ آنکھوں والے اندھے ہو سکتے ہیں تو پڑھے لکھے جاہل کیوں نہیں۔اکبر الہ آبادی کو دور فرعونیت میں بچوں کے قتل پر افسوس ہوا کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی۔ع
؎ یوں قتل پہ بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ہمیں بھی گلہ ہے مذکورہ بادشاہ کو فیس بک کی نہ سوجھی ورنہ وزیر دانا یوں خوار نہ ہوتا۔فیس بک ایک ایسا پیمانہ ہے جس سے اندھے کیا عقل کے اندھوں کا بھی پتہ چل جاتا ہے اور تو اور جاہل ا ور پڑھے لکھے جاہلوںکا بھی پتہ چل جاتا ہے۔یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کون کتنے پانی میں ہے۔کون اورجینل ادیب ، کالم نگار یا شاعر ہے اور کون نقب زن ، سرکہ کا ماہر ۔ ۔کون کون دوسرے شاعروں کے اشعار شیئر(Share) کر کے داد پاتا ہے اور کون کون لا علمی میں داد ہائے تحسین بلند کر کے جعلی شاعر کی ہمت افزائی کر تا ہے ۔اشعار پوسٹ کرنے والے کی قلعی تو کھلتی ہے لیکن داد دینے والے کی قابلیت اور علمیت کا بھی پتہ چل جاتا ہے ہمیں یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہمارے کالم میں چھوٹی کڑوی گولی پرشوگر کی موٹی تہہ ہوتی ہے جو تمہید باندھنے کے کام آتی۔اس شوگر کوٹنگ کے بعد کڑوی گولی کی طرف آتے ہیں جو آج کے کالم کی وجہ ہے کہ فیس بک پر اکثر ایسے جاہلوں سے پالا پڑتا ہے جنہیں نہ آئین کا پتہ ہوتا ہے نہ سسٹم کا لیکن اپنے اپنے ممدوح کی محبت میں بیجا کمینٹ سے باز نہیں آتے۔ ایک عرصے سے نون کے مخالفین صدر پاکستان پر طنز کرتے ہیں کہ ۱۴ اگست یا ۲۳ مارچ کو دھوپ کھانے کے لیئے باہر نکلتے ہیں یا تلاش گمشدہ میں صدر کا نام لکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ صدر شاید کوئی ان پڑھ اور مجبور شخص ہے ان کو یہ نہیں پتہ کہ آئین میں رہتے ہوئے اپنا کام سر انجام دے رہے ہیں۔کئی بارہم نے سمجھایا کہ یہ آئینی عہدہ صرف اس ہی کی اجازت دیتا ہے لیکن ان کی نظر میں شاید ڈکٹیٹروں کا رول ہے یا زرداری کا جس نے آئین کے خلاف کام کیا تھاچند دن پہلے کسی نے ایک تہمت لگائی کہ وزیر اعظم کے کپڑے اتروا کر تلاشی لی گئی ۔وضاحت کردی کہ عام مسافروں کے صرف بیلٹ اور جوتے اتروائے جاتے ہیں کپڑے نہیں لیکن پڑھے لکھوں کی سمجھ میں بھی یہ نہیں آرہی اور مسلسل یہ ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں اس میں کچھ حصہ مفاد پرست اینکروں کا بھی ہے جو غیر جانبدار نہیں ہیں۔۔حد اس وقت ہوئی جب ایک وڈیو میں وزیر اعظم نے بتایا کہ وہ عام مسافر کی طرح گئے تھے اس لیئے ان کو بھی عام مسافر کی طرح ٹریٹ کیا گیا جس پر انہیں فخر ہے۔اس پر کسی بد نیت نے یہ کیپشن لگایا کہ وزیر اعظم نے خود کہا کہ کپڑے اتروانے پر انہیں فخر ہے۔ہم نے ان لوگوں کو کہا بھی کہ ری وائنڈ کر کے دیکھیں یہ الفاظ نہیں کہے لیکن جاہلوں کا تو علاج ہو سکتا ہے پڑھے لکھے جاہلوں کا نہیںلیکن شکر ہے فیس بک کی بدولت یہ پڑھے لکھے جاہل ایکسپوز ہو رہے ہیں اور ہمیں ان لوگوں کو بلاک کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔