ٹکٹ نہ ملنے پر خواتین کارکنوں کی قیادت پر تنقید
عنبرین فاطمہ ۔۔۔
نگران سیٹ اپ مکمل ہوتے ہی صدر مملکت آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے کے درمیان اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں بلاول کا والد سے ناراض ہو کر دبئی جانے کی ایک وجہ پارٹی کے دیرینہ کارکنوں کو نظر انداز کیا جانا بھی بتایا گیا۔ان دنوں پارٹی کے اہم فیصلے فریال تالپور کر رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ بھٹو پارٹی اب تالپور پارٹی بننے جا رہی ہے۔ادھر پیپلزپارٹی کے لئے کئی برسوں سے کام کرنے والی خواتین کو ٹکٹ نہ دئیے جانے پر وہ پارٹی قیادت سے خاصی نالاں ہیں۔پارٹی ٹکٹ نہ ملنے والوں میں ساجدہ میر،صغیرہ اسلام،رفعت سلطانہ ڈار،آصفہ فاروقی،فوزیہ بہرام،طلعت یعقوب،فخرالنساءکھوکھر،شکیلہ رشید و دیگر کے نام قابل ذکر ہیں۔ان میں سے زیادہ تر کا یہی کہنا ہے کہ پانچ سال تک اپوزیشن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی ہم خواتین ایم پی اےز کوبغیر وجہ بتائے ٹکٹ نہیں دئیے گئے جس کی وجہ سے پارٹی کارکنوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔پارٹی ٹکٹ نہ ملنے والی ورکر خواتین کا کہنا ہے کہ ”پاکستان پیپلز پارٹی“ ایک ایسی جماعت ہے جس کے ہم جیسے جیالوں نے اپنی جماعت کےلئے سڑکوں پر ماریں کھائیں اور جیلیں کاٹیں بے نظیر بھٹو نے پارٹی ورکروں کو سینے سے لگائے رکھا ان کی شہادت کے بعد ان تمام جیالوں کو پارٹی قیادت کی جانب سے بری طرح سے نظر انداز کیا گیا اس کے باوجود انہوں نے اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کیں۔یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جن ورکروں کو بے نظیر نے اپنے سینے سے لگائے رکھا انہیں نظر انداز کیوں کیا جا رہا ہے؟اس حوالے سے ہم نے پیپلز پارٹی کی ان چند ایک ایسی ورکرز سے بات کی جنہیں ٹکٹ نہیں دئیے گئے۔ ”ساجدہ میر“ نے کہا کہ میں نے آنکھ ہی پاکستان پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے کھولی تھی زمانہ طالب علمی سے ہی پارٹی کےلئے دیوانہ وار کام کر رہی ہوں۔بے نظیر بھٹو اپنے پارٹی ورکروں سے دلی لگاﺅ رکھتی تھیں ان کی خدمات کو سراہتی تھیں انہوں نے پارٹی ٹکٹ کے معاملے میں ہمیشہ واضح پالیسی رکھی اگر کسی ورکر کو پارٹی ٹکٹ نہیں بھی دی جاتی تھی تو اس کو بلا کر بی بی تسلی دیتی تھیں یا اپنی مجبوری بیان کرتی تھیں اتنے میں ہی ورکر خوش ہوجاتا تھا اور اس کا پارٹی کے لئے جذبہ اور بھی بڑھ جاتا تھا۔ہم وہ لوگ ہیں جنہوںنے پارٹی کے لئے سڑکوں پر ماریں کھائیں ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم نے احسان نہیں کیا لیکن یہ ہماری محبت تھی پارٹی کےلئے۔آج بھی ہم بی بی کی پارٹی کےلئے کھڑے ہیں لیکن ہمارے ساتھ سوتیلوں جیسا سلوک ہورہا ہے۔بغیر وجہ بتائے ہمیں ایک طرف کر دیا گیا ہے فریال تالپور پارٹی کے اہم فیصلے کر رہی ہیں ان کی پارٹی کےلئے خدمات کیا ہیں ہماری سمجھ سے باہر ہے صاف سی بات ہے ہم فریال تالپور کو جانتے ہی نہیں ہم تو صرف بی بی اور بھٹو کو جانتے ہیں۔فریال تالپور ہم جیسے جاں نثار ورکروں کو نظر انداز کرکے بی بی کی نشانیوں کو ختم کر رہی ہے۔میرے خلاف سازش کی گئی ہے بی بی کی پارٹی تو یہ رہ ہی نہیں گئی بلکہ یہ تو سازشیوں اور خوشامدیوں کا ٹولہ بن گیا ہے خوشامدیوں کا مقابلہ خوشامدیوں سے ہے۔میں نے1979ءمیں اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز پیپلز پارٹی میں شمولیت سے کیا تب سے اب تک اس جماعت کے ساتھ بی بی کی وجہ سے چل رہی ہوں ہمیں نہیں معلوم تھا کہ بی بی کے بعد اس کے جاں نثاروں کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا۔فائزہ ملک کی اس پارٹی کے لئے کتنی اور کیا خدمات ہیں جو اس کو پارٹی ٹکٹ دیا گیا اور مجھے نظر انداز کر دیا گیا۔پارٹی ٹکٹ دینا تو درکنار مجھے کسی نے بلا کر بتانا یا کچھ پوچھنا تک گوارہ نہیں کیا۔ہم نے اس پارٹی کےلئے جتنا کام کیا ہے اور جو نتائج دئیے ہیں وہ فائزہ ملک جیسے کل کے لوگ کیا دیں گے۔”صغیرہ اسلام“ نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر بے حد افسوس ہوا ہے کسی بھی ورکر کو صرف اس بات کے لئے ٹکٹ نہ دینا کہ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ ٹکٹ حاصل کر چکا ہے اس کا کیا جواز ہے آخر پارٹی سروسز بھی کوئی چیز ہیں۔ہم جیسے لوگ جنہوںنے گرم سرد حالات کے تھپھیڑے کھائے لیکن پارٹی پر آنچ نہ آنے دی آج وہی پارٹی کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے لگے ہیں۔میں خود کو پارٹی کا ادنیٰ کارکن تصور کرتی ہوں لیکن بی بی نے کبھی کسی کارکن میں فرق نہیں سمجھا تھا وہ جب کئی برسوں کے بعد وطن واپس آئیں تو میں بھی ان کا استقبال کرنے کےلئے ائیر پورٹ پر گئی انہوں نے مجھے گلے لگا کر کہا کہ صغیرہ تم تو ویسی کی ویسی ہو بالکل نہیں بدلی میرے لئے ان کے الفاظ قیمتی اثاثہ ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے مجھے وہ میرے نام اور شکل سے پہچانتی تھیں اور یہی چیز میرے لئے بہت اہمیت کی حامل تھی۔لیکن آج جو بھی پارٹی ورکروں کے ساتھ ہو رہا ہے وہ افسوس کا مقام ہے یہ ہماری بی بی کی پارٹی ہے ہم مرتے دم تک اس پارٹی کے ساتھ کھڑے رہیں گے باقی جو قیادت نے کرنا ہے وہ تو کرنا ہے ہم ان کے فیصلوں کو قبول کرنے کے علاوہ اب اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی خواتین ونگ پنجاب کی صدر بیلم حسنین نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ ہمیشہ ورکر کی کارکردگی کو دیکھ کر دیا جاتا ہے اور پارٹی قیادت یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہے۔اس مرتبہ ورکروں کی سابقہ کارکردگی ،تعلیم اور پارٹی کےلئے ان کی خدمات کو پیش نظر رکھ کرٹکٹ جاری کیے گئے ہیںاس لئے ناراض ہونے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔میں خواتین ونگ پنجاب کی صدر ہوں مجھے معلوم ہے کہ کس ورکر کی کیا کارکردگی رہی ہے اسی طرح سٹی کی صدور سے جب سفارشات مانگی گئیں تو انہوںنے بھی اسی فارمولے کو مد نظر رکھتے ہوئے ناموں کی لسٹ آگے بھیجی۔فریال تالپور خواتین کے شعبے کو بہت اچھے انداز میں چلا رہی ہیں اور ان کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ کس پارٹی کارکن کی کیا خدمات ہیں۔جہاں سینکڑوں کے حساب سے امیدواروں کی درخواستیں موصول ہوں وہاں دس امیداواروں کا انتخاب کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔اب جن کو ٹکٹ جاری نہیں ہوا ان کی براہ راست پہنچ قیادت تک تو ہے نہیں اس لئے وہ لوگ مجھے ٹارگٹ کر رہے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے،کسی کو ٹکٹ جاری کرنے اور نہ کرنے سے میرا واسطہ نہیں ہے۔حالیہ برسوں میں گورنمنٹ میں مجھے ایک بھی وزارت اور ایڈوائزری نہیں سونپی گئی لیکن میں نے احتجاج کرکے سڑکیں بلاک نہیں کیں بلکہ تحمل کا مظاہرہ کیا۔آج ناراضگیوں کا اظہار کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ قیادت نے انہیں کتنی بار نوازا۔راجہ ریاض سیکرٹری جنرل پی پی پی پارلیمنٹیرین رہے ہیں انہوں نے تمام لسٹیں فائنل کرکے آگے بھجوائیں اور صدر مملکت نے جب منتخب شدہ امیدواروں کی لسٹوں پر دستخط کرکے مہر ثبت کر دی تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔جہاں تک فریال تالپور پر اعتراضات اٹھائے جانے کی بات ہے تو وہ بالکل بے بنیاد ہیں فریال بخوبی پارٹی کے معاملات چلا رہی ہیں خواتین کے شعبے کو احسن طریقے سے دیکھ رہی ہیں۔محترمہ کی شہادت پارٹی کے لئے بڑا صدمہ ہے ان کی عدم موجودگی میں اب پارٹی کے معاملات کسی کو تو چلانے ہیں میرے حساب سے اس وقت فریال تالپور سے زیادہ پارٹی معاملات کو سمجھ بوجھ سے کوئی اور نہیں دیکھ سکتا۔ناہید خان (پولیٹیکل سیکرٹری بے نظیر بھٹو )اس حوالے کہتی ہیں کہ پارٹی کے فیصلے کہاں بیٹھ کر ہوتے ہیں اور کون کررہا ہے اب یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔پارٹی ٹکٹ جاری کرنے کے حوالے بے نظیر خاصی دلچسپی لیتی تھیں وہ سفارشات موصول ہونے کے بعد خود فیصلہ کرتی تھیں۔اب جس طرح سے پارٹی کے سینئر کارکنوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ قابل افسوس ہے۔ساجدہ میر کم عمری میں بھٹو کی پارٹی کا حصہ بنیں بہت چھوٹی تھیں جب وہ بھٹو کے مزار پر حاضری دیا کرتی تھیں اس خاتون نے پارٹی کی ورکر ہونے کا صحیح حق ادا کیا ہے ان کی جدوجہد سیاست میں نئے آنے والوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے بے نظیر بھٹو ساجدہ میر کےلئے نرم گوشہ رکھتی تھیں وہ ان کی خدمات کو بے حد سراہتی تھیں جب ٹکٹ دینے کی باری آتی تھی تو ان جیسی کارکنوں کو سب سے آگے رکھتی تھیں۔جہاں تک مخصوص نشستوں کی بات ہے تو بی بی ان خواتین کو ان سیٹوں پر لاتی تھیں جنہوں پارٹی کےلئے دن رات ایک کیا اور ساجدہ میر یا صغیرہ اسلام جیسی خواتین کو تو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس کے باوجود کیوں کیا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔پیپلز پارٹی کی ڈور کس کے ہاتھوں میں ہے اب یہ کہنا بہت مشکل ہے اس لئے میں یہی کہوں گی بی بی سے پیار کرنے والے اپنی صفوں میں اتحاد رکھیں۔