ڈاکٹر اسرار احمد
پوری دنیا کو اس وقت بدترین اور گھمبیر ترین مالی و اقتصادی بحران نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ پورے عالم انسانیت میں انتہا کو چھوتی ہوئی بے روزگاری اور مالی بدحالی کا دور دورہ ہے۔ اس خطرناک حد تک پھیلی ہوئی بیروزگاری اور بدحالی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود عالمی طاقت امریکہ اس کا سب سے بڑا شکار ہے۔ جہاں بیروزگاری کی شرح برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق اس کی شرح 85فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ دسمبر 2007ء سے لے کر ا ب تک بیروزگار افراد کی تعداد 51ملین ہو گئی ہے۔ صرف گزشتہ ماہ مارچ میں بے روزگار ہونے والے افراد کی تعداد 6لاکھ 63ہزار ہے۔
امریکہ اور یورپ میں تعمیراتی شعبے سے بے شمار لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ اور یہ شعبہ پوری طرح سے متاثر ہو چکا ہے اور قریباً اس شعبے سے وابستہ تمام افراد بے روزگار ہو چکے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ اور انسان کی ضروریات زندگی کی اشیاء تک رسائی بھی ناممکن ہو گئی ہے۔ دنیا کی اس گھمبیر اور مشکل ترین صورت حال پر قابو پانے کے لئے گزشتہ دنوں لندن میں دنیاکے اہم صنعتی ممالک کی تنظیم ’’جی ٹونٹی ‘‘ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں بڑی معیشتوں کے سربراہوں نے موجودہ اقتصادی اور مالی بحران پر قابو پانے کے لئے ایک ٹریلین یعنی دس کھرب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس سے دنیا کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہودی ’’مہاجنوں‘‘ کو ہوا ہے۔ یعنی دس کھرب ڈالر میں سے 750ارب ڈالرز صرف اور صرف انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ المعروف ’’آئی ایم ایف‘‘ کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ غریب ممالک کو مالی مدد دینے کے لئے آئی ایم ایف کے وسائل 500ارب ڈالرز تک بڑھا دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اور ڈرافٹ کی سہولت کو 250ارب ڈالر تک کر دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کو مضبوط بنانے کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے کہ یہودی مہاجنوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے۔ اور درحقیقت موجودہ عالمی اور اقتصادی بحران بھی انہی مہاجنوں کا پھیلایا ہوا ہے تاکہ پوری دنیا کو اپنے اقتصادی تسلط میں لایا جائے۔ وہ جو اقبال نے ایک کارخانہ دار کے بارے میں کہا تھا ’’خواجہ از خون رگ مزدور سازد لیل ناب!‘‘ یعنی یہ سرمایہ دار جو شراب پیتا ہے یہ مزدور کے خون سے کشید کی گئی ہوتی ہے۔ آج پورے عالم انسانیت کے خون سے کشید کی گئی شراب یہودی مہاجن پی رہے ہیں۔ انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی آڑ میں پورے عالم انسانیت کا خون چوس لیا ہے اور اب بھی جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور یہ ایسے ہی نہیں ہے اس کے لئے یہودیوں نے بہت عرصہ منصوبہ بندی کی اور ایک ایسی سازش تیار کی کہ پورے عالم انسانیت کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑا جا سکے کیونکہ یہود چاہتے ہیں کہ پوری دنیا پر ان کا غلبہ ہو جائے اور وہ اپنا یہ غلبہ براہ راست فوجی قوت کے ذریعے حاصل نہیں کرنا چاہتے حالانکہ وہ یہ مقصد اپنے یرغمال بنائے ہوئے ملک امریکہ کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کا پروگرام ہے کہ پوری دنیا کو اقتصادی طاقت کے ذریعے زیر کیا جائے۔ اور ان کے لئے ان کے ’’بڑوں‘‘ نے کئی سازشیں (Conspiracies) تیار کر رکھی ہے اور طویل المیعاد پروگرام بنا رکھی ہیں اور فی الوقت اس میدان میں اس قوم یعنی یہود کے مدمقابل کوئی نہیں۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے ممالک کی معیشت اس کی مٹھی میں بند ہے۔ دنیا تعلیم اور ترقی کرتے ہوئے بہت آگے نکل گئی۔ ہم نے انہیں ان کی ثقافت کے نام پر پیچھے رہنے دیا۔
افغانستان میں طالبان کی پیدائش کے حوالے سے سب سے بڑا نظریہ یہ ہے کہ وہ جہاد افغانستان کے نام پر بنایا گیا اسلحہ تھے جس نے امریکہ کے مفاد میں سوویت یونین کو پاش پاش کیا اور اب یہی لوگ اپنی نسل بڑھا کر منہ زور اور خود مختار ہو گئے ہیں اور ایک جیسے رہن سہن آپس میں رشتے داریوں اور ڈیورنڈ لائن کی ناپائیداری کے سبب افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ مفروضہ معاملے کو نہ سمجھنے اور غیرملکیوں کی زبان بولنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ان حالات کو منطقی انداز سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاد افغانستان کے نام پر امریکہ سمیت چالیس امیر ترین ممالک نے سازوسامان اسلحہ اور کھربوں ڈالر فراہم کئے اور تربیت کے لئے سرکاری سطح پر جدید ترین تربیت گاہیں بھی موجود تھیں۔ سویت یونین کا معاملہ ٹھپ ہونے کے بعد دھوکے میں لائی گئی یہ جہادی نسل بے سروپا اور بے آسرا ہو گئی۔ ان کے لئے امریکہ اور یورپ کی محبتیں ختم ہوئے تقریباً 20سال بیت چکے ہیں۔ اس دوران عملی لڑائی لڑنے والی نسل بوڑھی ہو گئی ہے یا مر چکی ہے۔ اب ان کے پاس نہ تو اتنا سرمایہ اور نہ ہی وہ عالمی تھپکیاں ہیں جنہیں وہ اپنی آئندہ نسل کوبخش سکیں۔ اس وقت 40 ممالک نے مل کر جہادیوں کے ذریعے سوویت یونین کو گرایا۔ مگر اب ان چالیس ممالک سمیت تقریباً 200 ملک ان ہی کے جانی دشمن ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سرمائے او رتربیت کی عدم دستیابی اور عالمی دشمنی کے باوجود وہ اپنی نسل اس حد تک بڑھا لیں کہ دنیا کے لئے خطرہ بن جائیں۔ اس لئے ہم قبائلی علاقوں میں موجود مزاحمت کو مکمل طور پر افغانستان کے طالبان کی سرگرمیاں قرار نہیں دے سکتے۔ وہاں کی مزاحمت دراصل تنہائی کے باعث پیدا ہونے والی نفسیاتی مایوسی اور ناانصافی کے خلاف ردعمل ہے جسے بچے کھچے طالبان کے نظریے نے اپنی طرف متوجہ کر لیا کیونکہ طالبان کے فلسفے کی جتنی بھی مخالفت کی جائے یہ بات سب مانتے ہیں کہ ان کے ہاں انصاف فوری ہوتا ہے اور انصاف کے قوانین اور سزائیں امیر اور غریب سب کے لئے ایک جیسی ہیں۔ ان پر سب سے بڑا الزام خواتین کے ساتھ رویے پر ہے۔ اس میں بھی ایک بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جو بات ہمیں قبول ہے وہ سرحدی علاقوں اور قبائلیوں کے معاشرتی ماحول میں قابل قبول نہیں ہے مثلاً ہمارے ہاں خواتین کا مردوں کے ساتھ آزادانہ گھومنا پھرنا‘ کام کرنا اور میڈیا پر آنا جدید سوچ کا نتیجہ کہلاتا ہے۔ جبکہ سرحدی اور قبائلی لوگ اسے مغربی سوچ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ہم بھی پہلے ان ہی اقدار پر عمل کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ مغربی تعلیم‘ ترقی اور خاص طور پر بیرونی ثقافتی یلغار نے ہماری سوچیں بدل دیں۔ یہ صحیح ہے یا غلط یہ دوسری بحث ہے لیکن یہ درست ہے کہ قبائلی علاقوں کے لوگ تنہا رہنے کے باعث جدید تعلیم‘ ترقی اور ثقافتی یلغار سے بالکل ناآشنا رہے جس کی وجہ سے ان کے درمیان نئے اور پرانے خیالات کی آمیزش کا عمل شروع نہ ہو سکا اور اب ایک دم وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ جو اسے اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں مذہبی دشمن بھی قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ دو پس منظروں (Frame of References) کا اختلافات ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بعض تنظیمیں پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ لیکن سرحد اور قبائلی علاقوں میں موجود یہ مزاحمت پاکستان کی نہیں بلکہ حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ فورسز پر حملے بلوچستان اور سندھ میں پہلے بھی ہوتے آئے ہیں۔ لہٰذا ہمیں صوبہ سرحد میں مقامی مزاحمت کاروں اور بین الاقوامی بدنیت دہشت گردوں کے درمیان فرق رکھنا چاہئے جن کی طالبان کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیاں قبائلی اور سرحدی لوگوں کے کھاتے میں پڑ رہی ہیں۔ پاکستان نے امریکہ سے سالانہ پانچ ارب ڈالر کی بڑی امداد کا مطالبہ کیا ہے جس سے ان علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف ایک لاکھ افراد کی نئی فوج تیار کی جائے گی۔ ڈرون اٹیک او ایسی نئی فوج کی تیاری سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ سامنے کھڑے شخص کا علاج صرف گولی ہے تو پھر یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ وہ شخص بھی ہمارا علاج صرف گولی ہی سمجھے۔ بہت بڑی رقم سے نئی فوج تیار کرنے کی بجائے وہاں کے ایک لاکھ نوجوانوں کو روزگار کیوں نہیں دیا جاتا۔ انہیں لبرل ازم کا درس دینے کی بجائے ہم خود لبرل ہو کر وہاں کے صدیوں پرانے پسماندہ معاشرتی حالات اور ان کی قید تنہائی کو ختم کرنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ ڈرون حملوں پر سول حکومت ورثے میں ملنے والے معاہدے کے تحت چپ ہے لیکن یہاں اور وہاں کے عام لوگ اس ظلم پر بے چین ہیں۔ معاملات جو بھی ہوں عام پاکستانی ہمیشہ پاک فوج کو محب وطن اور آخری سہارا تصور کرتا ہے۔ ڈرون حملوں کے باعث بڑ ھتی بے چینی کی وجہ سے ہو سکتا ہے اب کچھ فیصلے کرنے پڑیں۔ کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دنیا کی چھٹی بڑی فوج اپنے نہتے شہریوں پر حملے دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتی۔ اپنے علاقہ غیر کے پیارے لوگوں کو غیروں کے پنجوں سے چھڑا کر ہی انہیں ہمیشہ کے لئے غیربننے سے روکا جا سکتا ہے۔
پوری دنیا کو اس وقت بدترین اور گھمبیر ترین مالی و اقتصادی بحران نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ پورے عالم انسانیت میں انتہا کو چھوتی ہوئی بے روزگاری اور مالی بدحالی کا دور دورہ ہے۔ اس خطرناک حد تک پھیلی ہوئی بیروزگاری اور بدحالی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود عالمی طاقت امریکہ اس کا سب سے بڑا شکار ہے۔ جہاں بیروزگاری کی شرح برق رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق اس کی شرح 85فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ دسمبر 2007ء سے لے کر ا ب تک بیروزگار افراد کی تعداد 51ملین ہو گئی ہے۔ صرف گزشتہ ماہ مارچ میں بے روزگار ہونے والے افراد کی تعداد 6لاکھ 63ہزار ہے۔
امریکہ اور یورپ میں تعمیراتی شعبے سے بے شمار لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ اور یہ شعبہ پوری طرح سے متاثر ہو چکا ہے اور قریباً اس شعبے سے وابستہ تمام افراد بے روزگار ہو چکے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ پوری دنیا میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ اور انسان کی ضروریات زندگی کی اشیاء تک رسائی بھی ناممکن ہو گئی ہے۔ دنیا کی اس گھمبیر اور مشکل ترین صورت حال پر قابو پانے کے لئے گزشتہ دنوں لندن میں دنیاکے اہم صنعتی ممالک کی تنظیم ’’جی ٹونٹی ‘‘ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں بڑی معیشتوں کے سربراہوں نے موجودہ اقتصادی اور مالی بحران پر قابو پانے کے لئے ایک ٹریلین یعنی دس کھرب ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں جس سے دنیا کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہودی ’’مہاجنوں‘‘ کو ہوا ہے۔ یعنی دس کھرب ڈالر میں سے 750ارب ڈالرز صرف اور صرف انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ المعروف ’’آئی ایم ایف‘‘ کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ غریب ممالک کو مالی مدد دینے کے لئے آئی ایم ایف کے وسائل 500ارب ڈالرز تک بڑھا دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اور ڈرافٹ کی سہولت کو 250ارب ڈالر تک کر دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کو مضبوط بنانے کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے کہ یہودی مہاجنوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کیا جائے۔ اور درحقیقت موجودہ عالمی اور اقتصادی بحران بھی انہی مہاجنوں کا پھیلایا ہوا ہے تاکہ پوری دنیا کو اپنے اقتصادی تسلط میں لایا جائے۔ وہ جو اقبال نے ایک کارخانہ دار کے بارے میں کہا تھا ’’خواجہ از خون رگ مزدور سازد لیل ناب!‘‘ یعنی یہ سرمایہ دار جو شراب پیتا ہے یہ مزدور کے خون سے کشید کی گئی ہوتی ہے۔ آج پورے عالم انسانیت کے خون سے کشید کی گئی شراب یہودی مہاجن پی رہے ہیں۔ انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی آڑ میں پورے عالم انسانیت کا خون چوس لیا ہے اور اب بھی جونک کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور یہ ایسے ہی نہیں ہے اس کے لئے یہودیوں نے بہت عرصہ منصوبہ بندی کی اور ایک ایسی سازش تیار کی کہ پورے عالم انسانیت کو اپنے خونی پنجوں میں جکڑا جا سکے کیونکہ یہود چاہتے ہیں کہ پوری دنیا پر ان کا غلبہ ہو جائے اور وہ اپنا یہ غلبہ براہ راست فوجی قوت کے ذریعے حاصل نہیں کرنا چاہتے حالانکہ وہ یہ مقصد اپنے یرغمال بنائے ہوئے ملک امریکہ کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ ان کا پروگرام ہے کہ پوری دنیا کو اقتصادی طاقت کے ذریعے زیر کیا جائے۔ اور ان کے لئے ان کے ’’بڑوں‘‘ نے کئی سازشیں (Conspiracies) تیار کر رکھی ہے اور طویل المیعاد پروگرام بنا رکھی ہیں اور فی الوقت اس میدان میں اس قوم یعنی یہود کے مدمقابل کوئی نہیں۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے ممالک کی معیشت اس کی مٹھی میں بند ہے۔ دنیا تعلیم اور ترقی کرتے ہوئے بہت آگے نکل گئی۔ ہم نے انہیں ان کی ثقافت کے نام پر پیچھے رہنے دیا۔
افغانستان میں طالبان کی پیدائش کے حوالے سے سب سے بڑا نظریہ یہ ہے کہ وہ جہاد افغانستان کے نام پر بنایا گیا اسلحہ تھے جس نے امریکہ کے مفاد میں سوویت یونین کو پاش پاش کیا اور اب یہی لوگ اپنی نسل بڑھا کر منہ زور اور خود مختار ہو گئے ہیں اور ایک جیسے رہن سہن آپس میں رشتے داریوں اور ڈیورنڈ لائن کی ناپائیداری کے سبب افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ مفروضہ معاملے کو نہ سمجھنے اور غیرملکیوں کی زبان بولنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ان حالات کو منطقی انداز سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہاد افغانستان کے نام پر امریکہ سمیت چالیس امیر ترین ممالک نے سازوسامان اسلحہ اور کھربوں ڈالر فراہم کئے اور تربیت کے لئے سرکاری سطح پر جدید ترین تربیت گاہیں بھی موجود تھیں۔ سویت یونین کا معاملہ ٹھپ ہونے کے بعد دھوکے میں لائی گئی یہ جہادی نسل بے سروپا اور بے آسرا ہو گئی۔ ان کے لئے امریکہ اور یورپ کی محبتیں ختم ہوئے تقریباً 20سال بیت چکے ہیں۔ اس دوران عملی لڑائی لڑنے والی نسل بوڑھی ہو گئی ہے یا مر چکی ہے۔ اب ان کے پاس نہ تو اتنا سرمایہ اور نہ ہی وہ عالمی تھپکیاں ہیں جنہیں وہ اپنی آئندہ نسل کوبخش سکیں۔ اس وقت 40 ممالک نے مل کر جہادیوں کے ذریعے سوویت یونین کو گرایا۔ مگر اب ان چالیس ممالک سمیت تقریباً 200 ملک ان ہی کے جانی دشمن ہیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ سرمائے او رتربیت کی عدم دستیابی اور عالمی دشمنی کے باوجود وہ اپنی نسل اس حد تک بڑھا لیں کہ دنیا کے لئے خطرہ بن جائیں۔ اس لئے ہم قبائلی علاقوں میں موجود مزاحمت کو مکمل طور پر افغانستان کے طالبان کی سرگرمیاں قرار نہیں دے سکتے۔ وہاں کی مزاحمت دراصل تنہائی کے باعث پیدا ہونے والی نفسیاتی مایوسی اور ناانصافی کے خلاف ردعمل ہے جسے بچے کھچے طالبان کے نظریے نے اپنی طرف متوجہ کر لیا کیونکہ طالبان کے فلسفے کی جتنی بھی مخالفت کی جائے یہ بات سب مانتے ہیں کہ ان کے ہاں انصاف فوری ہوتا ہے اور انصاف کے قوانین اور سزائیں امیر اور غریب سب کے لئے ایک جیسی ہیں۔ ان پر سب سے بڑا الزام خواتین کے ساتھ رویے پر ہے۔ اس میں بھی ایک بات سمجھنے کی یہ ہے کہ جو بات ہمیں قبول ہے وہ سرحدی علاقوں اور قبائلیوں کے معاشرتی ماحول میں قابل قبول نہیں ہے مثلاً ہمارے ہاں خواتین کا مردوں کے ساتھ آزادانہ گھومنا پھرنا‘ کام کرنا اور میڈیا پر آنا جدید سوچ کا نتیجہ کہلاتا ہے۔ جبکہ سرحدی اور قبائلی لوگ اسے مغربی سوچ کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ہم بھی پہلے ان ہی اقدار پر عمل کرتے تھے لیکن آہستہ آہستہ مغربی تعلیم‘ ترقی اور خاص طور پر بیرونی ثقافتی یلغار نے ہماری سوچیں بدل دیں۔ یہ صحیح ہے یا غلط یہ دوسری بحث ہے لیکن یہ درست ہے کہ قبائلی علاقوں کے لوگ تنہا رہنے کے باعث جدید تعلیم‘ ترقی اور ثقافتی یلغار سے بالکل ناآشنا رہے جس کی وجہ سے ان کے درمیان نئے اور پرانے خیالات کی آمیزش کا عمل شروع نہ ہو سکا اور اب ایک دم وہ اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں بلکہ جو اسے اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں مذہبی دشمن بھی قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ دو پس منظروں (Frame of References) کا اختلافات ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بعض تنظیمیں پاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ لیکن سرحد اور قبائلی علاقوں میں موجود یہ مزاحمت پاکستان کی نہیں بلکہ حکومتی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ فورسز پر حملے بلوچستان اور سندھ میں پہلے بھی ہوتے آئے ہیں۔ لہٰذا ہمیں صوبہ سرحد میں مقامی مزاحمت کاروں اور بین الاقوامی بدنیت دہشت گردوں کے درمیان فرق رکھنا چاہئے جن کی طالبان کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیاں قبائلی اور سرحدی لوگوں کے کھاتے میں پڑ رہی ہیں۔ پاکستان نے امریکہ سے سالانہ پانچ ارب ڈالر کی بڑی امداد کا مطالبہ کیا ہے جس سے ان علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف ایک لاکھ افراد کی نئی فوج تیار کی جائے گی۔ ڈرون اٹیک او ایسی نئی فوج کی تیاری سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ہم نے یہ طے کر لیا ہے کہ سامنے کھڑے شخص کا علاج صرف گولی ہے تو پھر یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ وہ شخص بھی ہمارا علاج صرف گولی ہی سمجھے۔ بہت بڑی رقم سے نئی فوج تیار کرنے کی بجائے وہاں کے ایک لاکھ نوجوانوں کو روزگار کیوں نہیں دیا جاتا۔ انہیں لبرل ازم کا درس دینے کی بجائے ہم خود لبرل ہو کر وہاں کے صدیوں پرانے پسماندہ معاشرتی حالات اور ان کی قید تنہائی کو ختم کرنے کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے۔ ڈرون حملوں پر سول حکومت ورثے میں ملنے والے معاہدے کے تحت چپ ہے لیکن یہاں اور وہاں کے عام لوگ اس ظلم پر بے چین ہیں۔ معاملات جو بھی ہوں عام پاکستانی ہمیشہ پاک فوج کو محب وطن اور آخری سہارا تصور کرتا ہے۔ ڈرون حملوں کے باعث بڑ ھتی بے چینی کی وجہ سے ہو سکتا ہے اب کچھ فیصلے کرنے پڑیں۔ کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دنیا کی چھٹی بڑی فوج اپنے نہتے شہریوں پر حملے دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتی۔ اپنے علاقہ غیر کے پیارے لوگوں کو غیروں کے پنجوں سے چھڑا کر ہی انہیں ہمیشہ کے لئے غیربننے سے روکا جا سکتا ہے۔