لاہور موٹر وے کے قریب رونما ہونے والے زیادتی کے واقعہ نے نہ صرف پاکستانیوں،بلکہ دنیا بھر کے درد دل رکھنے والے لوگوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،وزیر قانون راجہ بشارت اور کابینہ کے دیگر راہنما اس قصے کو حل کرنے کے لیے متحرک ہیں۔اورہمیں اپنی پولیس کی صلاحتیوں پر یقین ہے کہ وہ بہت جلد مجرمو ںکو شکنجے میں لے لیں گے ۔سی سی پی او لاہور عمر شیخ والی بات اگر کوئی صحافی کرتا تو اس میں وزن ہوتا ۔جی ٹی روڈ پر اگر رات کو گاڑی خراب ہو تو چوروں کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے کیونکہ جی ٹی روڈ پر ہر قسم کی ٹریفک چل رہی ہوتی ہے لیکن موٹروے پر مخصوص گاڑیاں کافی تیزسپیڈ سے چلتی ہیں ۔ایسے میں کسی مجرم کا وہاں پہنچنا کافی حیران کن لگتاہے ۔امید ہے تفتیش کرنے والے اس سوال کا جواب بھی تلاش کریں گے۔پچھلے ہفتے جاوید یونس کی کال آئی کہ راجہ صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی کابینہ کے ہمراہ سینیر کالم نگاروں اور ٹی وی اینکرز کو اپنی حکومت کی دو سالہ کارکردگی روپورٹ پیش کر رہے ہیں ۔آپ نے گوجرانوالہ سے اس تقریب میں شرکت کے لیے ضرور پہنچناہے ۔مقررہ وقت پر ہم وزیر اعلیٰ ہاوس پہنچے۔وزیر قانون راجہ بشارت سے مختصر سی بات چیت ہوئی،ان سے کچھ مسائل کا ذکر کیا تو انہوں نے کسی دن باقاعدہ ان کے دفتر حاضر ہوکے ملنے کا حکم جاری کردیا ۔ابھی گفتگو کے یہ سلسلے چل ہی رہے تھے کہ پر اعتماد وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اپنی کابینہ کے ہمراہ ہال میں تشریف لائے اور موجود ہر شخص کے پاس جا کے حال احوال دریافت کیا۔
وزیر اعلیٰ کی بریفنگ دی اس کا لب لباب کچھ یو ں ہے کہ’’ موجودہ پنجاب حکومت نے سابق حکمرانوں کی طرح بڑے بڑے منصوبے تو نہیں شروع کیے ہیں لیکن اس حکومت نے بہت سے ایسے بنیادی کام شروع کیے ہوئے ہیں جن پر پچھلی سات دہائیوں سے کسی حکومت نے دھیان نہیں دیا تھا‘‘۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے لوگوں کو شکایت تھی کہ وہ میڈیا کے سامنے بات نہیں کرتے ہیں لیکن پچھلے دنوں جب وزیر اعلی ہاوس لاہور میںپنجاب حکومت کی کارکردگی میڈیا کے سامنے پیش کی تو یہ غلط فہمی دور ہو گئی کہ موصوف کو بولنا نہیں آتا ہے ۔بہت خوشی ہوئی کہ سینئر صحافیوں کی جانب سے بہت بنیادی اور عوامی مفاد کے سوال کیے گئے۔لاہور کی سڑکوں پہ ٹریفک کا بے ہنگم شور،راوی ،نہر اور دوسرے نالوں میں صدقے کے نام پہ گوشت پھینکنے سے شہر کی فضا کو آلودہ ہونے کی شکایت کی گئی۔ضروریات زندگی کی ہر چیز کا نرخ بڑھنے کا گلہ کیا گیا ۔ ملک کے سینئر ترین صحافیوں کی جانب سے ایک کے بعد ایک سوال کیے جارہے تھا اور سب حیران ہو رہے تھے کہ ہر سوال کا جوا ب وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار ہی دے رہے تھے ۔کہیں ایسا محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ انہیں میڈیا کے سوالوں کے جوابات دینے میں پریشانی ہورہی ہے ۔اور نہ ہی کسی سوال کا جواب دیتے وقت ان کے ماتھے پہ پسینہ آیا تھا۔ہمارے ساتھ بیٹھے سہیل وڑائچ نے وزیر اعلیٰ سے کہا آپ پہ سب سے بڑا الزام یہی لگتا چلا آرہا ہے کہ آپ میڈیا کے سامنے آنے سے ڈرتے ہیں لیکن آج آپ نے ہم سب کو اپنے انداز بیاں سے حیراں کر دیا ہے ۔جب آپ بہت اچھے سے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ٹی وی اینکر ز کو انٹرویو دینے کا سلسلہ بھی شروع کریں ۔جس کے جواب میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے حامی بھر لی کہ جلد وہ ایسا بھی کریں گے اور شروعات سہیل وڑائچ سے ہی ہوںگی۔علماء کرام بیان کرتے ہیں کہ قیامت سے کچھ پہلے،کچھ سالوں کے لیے ساری دنیا میں مکمل امن کو جائے گا۔لیکن جب تک یہ دنیا ہے تب تک جرم کا سلسلہ بھی چلتا رہنا ہے۔اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ جرم کی شرح کم سے کم ہوتو حکومت کو چاہیے کہ نوجوانوں کے لیے معیاری اور سستی تفریح کا بندوبست کرنے کی کوشش کرے ،زیادہ کھیل کے میدان بنائے جائیں،زیادہ آرٹ اکیڈمیاں بنائی جائیں اور زیادہ ادبی و ثقافتی تقاریب کا انعقاد کروایا جائے ۔وزیر اعلی پنجاب نے اپنے بہت سے منصوبوں سے آگاہ کیا جن پر وہ عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔امید ہے کہ وہ بظاہر چھوٹے مگر نتائج کے لحاظ سے اہم منصوبوں کو جلد شروع کردیں گے ۔موٹر وے پر پولیس کیوں نہ تھی اس کا جواب جو ٹول پلازہ سے روزانہ کروڑوں کما رہے ہیںان سے مانگنا بنتا ہے ۔اوروزیر موٹرویز اور نیشنل ہائی ویز سے مانگنا بنتا ہے ،پنجاب حکومت سے تو نہیں بنتا۔
٭…٭…٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024