پیر‘ 25محرم الحرام 1442ھ‘ 14 ؍ ستمبر 2020ء
بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا
بچپن سے ایک کہانی سنتے آ رہے ہیں۔ یہ صدیوں پرانی کہانی ہے جو آنے والی صدیوں میں بھی سنائی جاتی رہے گی۔ کہتے ہیں ایک دانا بوڑھے نے اپنے بیٹوں کو اتفاق کا درس دینے کے لئے ایک لکڑیوں کا گٹھا دیا اور کہا کہ ایک ایک بھائی اسے توڑ کر دکھائے مگر کوئی اسے توڑ نہ سکا۔ جب اس بوڑھے نے گٹھا کھول کر ایک ایک لکڑی دی تو بھائیوںنے ایک ایک کر کے آسانی سے ساری لکڑیاں توڑ ڈالیں۔ اسے کہتے ہیں اتفاق میں برکت۔ یہ برکت اب عرب ممالک سے اُٹھ رہی ہے۔ وہ لاکھ عرب لیگ کا ڈھونگ رچائیں یا او آئی سی کا ڈرامہ کریں۔ امریکہ جو اس وقت عرب دنیا کا مربی بنا ہوا ہے۔ وہ اپنے پٹھو اسرائیل کے ساتھ مل کر ایک ایک کر کے عرب ممالک کو توڑتا اور رسوا کرتا جا رہا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر عرب ممالک ایک ایک کر کے سرتسلیم خم کرتے جا رہے ہیں۔ اگر یہ عرب ممالک متحد ہو کر صرف ایک شرط پر اسرائیل سے تعلقات بحال کرتے کہ القدس شریف فلسطین کے حوالے کر دیا جائے تو عالم اسلام ان کا خیرمقدم کرتا مگر وہاں تو فلسطین آزاد جی ہاں کامل آزاد ہوا نہ القدس شریف کا مشرقی حصہ ہی سہی فلسطینیوں کو دیا جا رہا ہے تو پھر اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کیوں۔ تاریخ گواہ ہے امریکہ نے جہاں جہاں بھی قیام امن کے نام پر مداخلت کی وہاں تباہی و بربادی ہی ہوئی۔ عراق ، افغانستان ، شام اور لیبیا کی زندہ مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ سرکار ختمی مرتبتؐ نے عربوں کی تباہی کے حوالے سے جو باتیں فرمائی تھیں شاید ان پر عمل کا وقت قریب آ رہا ہے۔
٭…٭…٭
موٹروے واردات کے بعد قریبی دیہات سے 25 ریکارڈ یافتہ ملزمان غائب ہو گئے
انہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اب گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسنے والا ہے۔ پنجاب میں اس وقت ہزاروں ریکارڈ یافتہ خطرناک ملزمان کھلے پھر رہے ہیں۔ یہ لوگ خود کو قانون کی گرفت سے آزاد سمجھتے ہیں۔ ان سب کی پشت پناہی بااثر افراد کرتے ہیں جو کسی بھی خطرے کی صورت میں انہیں محفوظ پناہ گاہیں بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ بذات خود ایک سوال ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ریکارڈ یافتہ ملزمان باہر کیا کر رہے ہیں۔ کیا یہ سب توبہ تائب ہو گئے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ مشہور ہے چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جرائم کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر وارداتیں بھی کرتے ہیں۔ پولیس والے بھی ان کے خیرخواہ ہی نکلتے ہیں۔ ورنہ کیا مجال ہے کہ کسی علاقے میں قتل ، اغواء ،ڈکیتی ، چوری ، زیادتی یا کوئی واردات ہو۔ بس ایک دفعہ ایسی وارداتوں میں ملوث افراد کو سرعام نمونہ عبرت بنایا جائے یا خلجی دورکی طرح مجرم پکڑے نہ جانے پر علاقے کے کوتوال یعنی ایس ایچ او اور تھانے کے عملے کو ان مجرموں کی جگہ پھانسی دی جائے تو باقی سب خودبخود سیدھے ہو جائیں گے وہ بھی تیر کی طرح ۔ بے خوفی نے سارا نظام تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کسی کو کسی کا ڈر نہیں۔ لوگ خوف سے خاموش ہوتے ہیں مگر قانون بے خوف ہو کرسزا دے سکتا ہے۔ بس اب بہت ہو چکا بے گناہ لوگوں کو پولیس مقابلے میں مارنے کی بجائے اگر اصل مجرموں کو مقابلوں میں پھڑکایا جائے تو حالات سدھر سکتے ہیں۔ جس دن سزا کا خوف غالب آ گیا جرائم خودبخود ختم ہونے لگیں گے…
٭…٭…٭
سیلاب سے متاثرہ افراد کو راشن تقسیم کرنے سے کچھ نہیں ہوتا: بلاول
بلاول نوجوان بھی نہیں رہے‘ بچے بھی نہیں ہیں۔ ان کی پارٹی والے انہیں ایک مدبر اور دانشور بنا کر پیش کرتے ہیں۔ کوئی انہیں بھٹو کی تصویر تو کوئی بینظیر کی تصویر قرار دیتا ہے۔ ان کے اس بیان سے تو یوں لگتا ہے جیسے وہ نہایت نادان اور ناسمجھ ہیں۔ سیلاب سے تباہ حال لوگوں کو راشن فراہم کرنا حکومت سندھ کی بھی ذمہ داری ہے مگر وہ اس میں ناکام نظر آرہی ہے۔ گزشتہ روز صدرپاکستان نے سندھ کے سلاب سے متاثرہ ایک دیہات میں 3 ہزار راشن کے تھیلے تقسیم کئے۔ اس موقع پر لوگوں نے شکوہ کیا کہ سندھ حکومت نے ابھی تک ان کا حال ہی نہیں پوچھا ہے۔ اس پر بھی بلاول جی بپھر گئے ہیں حالانکہ انہیں خوش ہونا چاہئے کہ کوئی تو آیا صوبے میں سیلاب سے متاثرافراد کی مدد کرنے کیلئے۔ ان کے بیان کا جواب پی ٹی آئی کے حلیم عادل شیخ نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ ’’راشن سے پیٹ بھرتا ہے‘ بھاشن سے نہیں۔‘‘ سو اب پیپلز پارٹی والوں کو چاہئے کہ وہ بھی بھاشن بند کرکے راشن دیں کیونکہ جب پیٹ خالی ہو تو سب باتیں‘ تقریریں جھوٹ لگتی ہیں۔ سندھ میں سیلاب سے 4 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت فی خاندان ایک لاکھ روپے دے۔ اب ان سے گزارش یہی ہے کہ اگر وفاق یہ نہیں کر رہا تو آپ بسم اللہ کریں۔ یہ نیک کام ہے‘ دیر کیسی‘ سندھ کے عوام نے آپ کو ووٹ دیا ہے۔ آپ اپنے صوبے کے عوام کی دادرسی کریں۔ وفاق بھی کرے۔ یوں سیلاب سے متاثر افراد کے مصائب میں کمی آئے گی۔
٭…٭…٭
بھارتی رافیل طیارہ گر کر تباہ
یہ تو ابھی تربیتی پروازوں کا حال ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ بھارت کو بڑا گھمنڈ تھا ان طیاروں پر جو اس نے فرانس سے خریدے ہیں۔ اسے وہ ایف سولہ اور تھنڈر 17 کے ہم پلہ بلکہ ان سے بھی بہتر قرار دیتا پھرتا تھا۔ چین کے ساتھ حالیہ کشیدگی میں بھارتی میڈیا بڑھا چڑھا کر رافیل طیاروں کو ناقابل تسخیر قرار دیتا آرہا ہے۔ چین کو سبق سکھانے کیلئے ان طیاروں کو رستم و سہراب بنا رہا تھا مگر یہ تو ابھی نندن والے مگ طیاروں کی طرح کے ہی نکلے۔ تربیتی مشقوں کے دوران ہی ایک رافیل اپنے ساتھ دو عدد پائلٹوں کو بھی لے بیٹھا۔ میدان جنگ میں ان کی حالت اور کارکردگی کیا ہوگی‘ اس کا اندازہ بھارتی حکومت اور میڈیا خود ہی لگا لے۔ اب مودی حکومت سوچ رہی ہوگی کہ ان طیاروں کولداخ میں چین کے خلاف استعمال کرنے کی حماقت کی جائے یا نہیں۔ یہ تو پورس کے ہاتھی نکلے ہیں جو خود بھی گر رہے ہیں اور اپنے پائلٹوں کو بھی کچل رہے ہیں۔دشمن کا حق بلند کرنے کیلئے جگر چاہئے اور دم جو نہ بھارتی فوجیوں کے پاس سے نہ ان کے ہتھیاروں اور طیاروں میں ہے۔ اس لئے بھارت والے بلاوجہ بڑھکیں مار مار کر اپنے پھیپھڑے خراب کرنے کی بجائے پڑوسی سے صلح صفائی کی راہ نکالیں۔ تنازعات ختم کرے‘ تب ہی اسے سکون اور شانتی نصیب ہوگی ورنہ حسد کی آگ میں جلتا رہے گا۔