سرینگر میں ایک عمارت کے چھوٹے سے کمرے میں جو مقبوضہ کشمیر پر قابض انتظامیہ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں میں ڈس انفارمیشن پھیلانے کیلئے استعمال کرتی ہے۔ صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر انتظامیہ کے ترجمان روہت کنسال نے دعویٰ کیا کہ کشمیر میں صورتحال ’’ معمول کے قریب‘‘ پہنچ چکی ہے۔ روہت کنسال کیساتھ مقبوضہ کشمیر میں قابض انتظامیہ کے دوسرے افسر بھی موجود تھے۔ ترجمان نے دعویٰ کیا کہ مقبوضہ وادی میں فون کی لینڈ لائنز بحال کر دی گئی ہیں۔ کپواڑہ اور ہندواڑہ میں حالات بالکل نارمل ہوگئے ہیں۔ روہت کنسال نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کپواڑہ اور ہندواڑہ میں ٹریفک بھی معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔ ترجمان نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ بد قسمتی سے مقبوضہ علاقے میں جتنے سکول کھولے گئے ہیں، ان میں طالبعلم نہیں آ رہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ اس لئے ہے کہ ان کے والدین تعاون نہیں کر رہے۔ مذکورہ ترجمان نے وادی کی معاشی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ کشمیری کسانوں کے سیب نہیں بک رہے جس کی وجہ سے وہ پریشانی کا شکارہیں، اب حکومت یہ سیب خود خریدے گی تا کہ انھیں معاشی مشکلات سے نکالا جائے۔ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سیبوں کی خرید کے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ترجمان نے یہ اعتراف بھی کیا کہ 5 اگست سے لے کر اب تک امن و امان کی خرابی کے 187 واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ترجمان کی یہ بریفنگ مقبوضہ کشمیر کے سب سے پرانے انگریزی روزنامے کشمیر ٹائمز میں شائع ہوئی۔ 5 اگست سے آج تک قابض انتظامیہ مسلسل یہ راگ الاپ رہی ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد کشمیر میں حالات بالکل نارمل ہیں لیکن صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے قابض انتظامیہ کے دعووں کے تضادات کھل کر سامنے آ جاتے ہیں۔
اگر حالات اتنے اچھے ہیں تو حریت کانفرنس کی قیادت کو رہا کیوں نہیں کیا جاتا؟ سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو حراست سے کیوں نہیں رہا کیا جا رہا ؟ ان کا شمار تو نئی دہلی کے دوستوں میں ہوتا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ 4 امریکی سینیٹروں ’’کرس وین ہولن‘‘، ’’بنجمن ایلکارڈن‘‘، ’’ ٹاڈ ینگ‘‘ اور ’’لنڈسے گرام‘‘ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں ان سینیٹروں نے امریکی صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ کو کشمیر کے مسئلے کے حل کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان سینیٹروں نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ وہ جموں و کشمیر کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے مداخلت کریں۔ ان سینیٹروں نے توقع ظاہر کی کہ امریکی کشمیر کا مسئلہ حل کرانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ سینیٹروں نے اپنے خط میں مقبوضہ علاقے کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی اور صدر ٹرمپ سے کہا کہ اگرچہ کشمیر کے مسئلہ کا دیر پا حل تلاش کرنے میں وقت لے گا لیکن فوری طور پر صدر ٹرمپ کو مداخلت کر کے وہاں انسانی حقوق کے بحران کو ختم کرانا چاہیے۔ ان سینیٹروں نے مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کی مکمل بندش پر بھی تشویش ظاہر کی۔ امریکی سینیٹروں کے علاوہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق نے اپنے اجلاس میں مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ظاہر کی۔ کونسل کی سربراہ نے تو واضح الفاظ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کشمیریوں کی رائے طلب کی جائے۔ سیاسی لیڈروں کو رہا کیا جائے۔ لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی ختم کی جائے اور ان کی تحریر و تقریر کی آزادی بحال کی جائے۔ یورپی یونین نے بھی کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے ۔ اگر حالات نارمل ہیں تو دنیا کیوں چیخ رہی ہے۔ نارمل حالات صرف مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ کے ترجمان کو نظر آ رہے ہیں۔ باقی ساری دنیا وہاں چالیس دن سے جاری کرفیو کو اٹھانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ سارا مغربی پریس جو پہلے مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی پر سوالات اٹھاتا تھا، اب یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ یہ تحریک آزادی کشمیر کی اپنی تحریک ہے، اسے باہر سے کوئی سپورٹ نہیں مل رہی۔ کشمیریوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی قبضے سے بیزار ہیں اور اس کے لئے مزاحمت کرتے رہیں گے۔ ادھر نریندر مودی کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اس نے جھارکھنڈ میں اپنی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بڑھک لگائی ہے کہ یہ 100 دن تو صرف ٹریلر ہے، پوری فلم باقی ہے۔ ابھی تو ہماری حکومت کو 100 دن ہوئے ہیں، ابھی پورے پانچ سال باقی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کے ارادے کیا ہیں لیکن اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ جب لوگ آزادی کے حقوق کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو شاہِ فرانس، زارِ روس اور شاہِ ایران کو فرار کی کوئی راہ نہیں ملتی۔ اسے ان حکمرانوں کے انجام کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024