پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کا شدید احتجاج
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں گرفتار ارکان پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے کے خلاف صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ صدارتی ڈائس کا گھیرائو کیا اور وزیر اعظم عمران خان اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر پھینک دیں۔
زیر حراست ارکان پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر کا اجرا سپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین کا صوابدیدی اختیار ہے جو عموماً استعمال ہوتا رہا ہے۔ موجودہ سپیکر اسد قیصر نے بھی اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جس پر اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے ان کا شکر بھی ادا کیا تھا۔ حکومت نے اگر یہ روایت ڈالی تھی تو جاری رکھی جانی چاہئے تھی۔ اپوزیشن کو بھی اپنے تحفظات کے لیے مہذبانہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔ پارلیمان کے اندر جس طریقے سے شور شرابا کیا گیا اور جو نعرے لگائے گئے یہ سب انتہائی نامناسب تھا۔ آج مسلم لیگ ن اور پی پی پی متحدہ اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں جو نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کی حریف تھیں، اسی دور میں صدارتی خطاب کے دوران پارلیمان میں یہی ماحول بنا ہوتا تھا۔ مسلم لیگ ن اور پی پی ایسے رویوں کے باعث اپنی اپنی حکومت کی دو دو بار آئینی مدت پوری نہیں کر سکی تھیں۔ ان پارٹیوں کو اپنے رویوں سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت رواں رہے گی اور مضبوط بھی ہو گی تو آپ کی باری آ جائے گی۔ دوسری صورت میں جمہوریت کا مردہ خراب ہو سکتا ہے اس کا ادراک حکومتی پارٹی کو بھی ہونا چاہئے وہ بھی اپوزیشن کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کرے۔