ہفتہ ‘ 14 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 14ستمبر 2019 ء
مہنگے نجی ہسپتالوں اور 1500 روپے فیس والے ڈاکٹروں کو ٹیکس نوٹسز
پنجاب ریونیو اتھارٹی نے مہنگے نجی ہسپتالوں کی یہ تعریف کی ہے کہ ایسے نجی ہسپتال جو ایک کمرہ کا روزانہ کرایہ 6 ہزار روپے یا اس سے زائد وصول کرتے ہیں کاش! کبھی کوئی اتھارٹی ان کمروں کے اندر جھانک کر دیکھنے کا تکلف بھی کرے جن کا یومیہ کرایہ 6 ہزار روپے وصول کیا جاتا ہے۔ یہ جتنے بھی بڑے بڑے نجی ہسپتال اور کلینک ہیں، ان میں سے صفائی اور سہولیات کے اعتبار سے کوئی بھی ورلڈ کلاس نہیں۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی سے یہ گِلا کرنے کا کوئی جواز نہیں لیکن ایک اور بھی محکمہ ہے جس کا اسم شریف محکمہ صحت ہے۔ اُس محکمے کی تشکیل میں وزیر صحت معاون ، مشیر ، سیکرٹری صحت ، ڈپٹی سیکرٹری ، نصف درجن کے لگ بھگ اسسٹنٹ سیکرٹری اور اس کے نیچے کا عملہ جسے فوج ظفر موج کہنا بے جا نہیں ہو گا۔ کسی نے ان نجی ہسپتالوں بلکہ ٹیکسالوں کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھا۔ اب آتے ہیں ڈاکٹروں کی طرف۔ 6 ہزار روپے یومیہ کرایہ وصول کرنے والے کسی ہسپتال میں ڈاکٹر کی فیس دو ہزار سے کم نہیں زیا دہ سے زیادہ کتنی ہو سکتی ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیں۔ مریض کو دیکھتے نہیں بلکہ ٹٹولتے ہیں بالکل ایسے ہی جس طرح قصاب بکرا خریدنے سے پہلے ، اُس کے دانت پسلیاں گنتا ہے پھر یہ اندازہ لگاتا ہے کہ ان پسلیوں پر گوشت کتنا ہے۔
٭٭٭٭٭
خیبر پی کے سے جتنے کیس آتے ہیں ’’Her‘‘ کی جگہ ’’His‘‘ لکھا ہوتا ہے۔ وکیل خاتون سائلہ کیلئے His کا لفظ استعمال کرتے رہے۔ His نہیں Her ہوتا ہے۔ فاضل جج کے ریمارکس۔
فاضل جج نے ٹھیک اصلاح کی کہ his نہیں her ہوتا ہے لیکن یہ معاملہ صرف کے پی کے کے اس کیس کا نہیں‘ جہاں جہاں خان برادران رہتے ہیں‘ ان سے اردو یا انگلش میں بات کی جائے تو وہ تمام گرائمر کی ایسی کی تیسی پھیر دیتے ہیں‘ مزے کی بات یہ ہے اگر کوئی انکی غلطی ٹھیک کرنا چاہے تو مجال ہے کہ ٹس سے مس ہوں‘ انکی سوئی ایک ہی جگہ اٹکی رہتی ہے۔ جنس بدلنے میں وہ منٹ نہیں لگاتے‘ واللہ اعلم یہ ان کی نظروں کا کمال ہے یا زبان کا ہیر پھیر۔ لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ وہ اپنی خواتین کو مؤنث کے طور پر ہی دیکھتے ہیں ۔ قصور صرف ہمارے مردوں کا ہی ہے جن کی بڑی مونچھیں ہونے کے باوجود انہیں She نظر آتے ہیں۔ فاضل عدالت کو صرف کیس پر ہی فوکس کرنا چاہیے‘ عدالتوں میں پہلے ہی مقدمات کی بھرمار ہے اگر ان کی زبان و بیان درست کرنے لگ گئے تو ایک مقدمہ بھی اپنے انجام کو نہیں پہنچ پائے گا۔ یہ بڑی معصوم قوم ہے‘ اسے اسکے حال پر ہی چھوڑ دینا چاہیے۔ خان صاحب بے شک کسی کو He کے بجائے She کہتے رہیں۔ یہ ہمارے خان بھائیوں کی خاص شناخت ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ تقسیم ہند سے پہلے پٹھان بھائیوں نے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں اپنی دھاک بٹھا رکھی تھی۔ خصوصاً دلی‘ ممبئی اور کلکتہ میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ دلیپ کمار (یوسف خان) اور مدھوبالا (ممتاز جہاں دہلوی) سے کون صاحب ذوق ناواقف ہوگا۔ لوگوں کو دیکھا ہے کہ انکی She, He اور خوچہ پر صدقے والی جارہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ن لیگ نے کئی ادھورے منصوبوں پر تختیاں لگائیں۔ وزیر صحت
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے ایک محکمانہ اجلاس میں شکوہ کیا ہے کہ ن لیگ نے کئی ادھورے منصوبوں پر تختیاں لگائیں، اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یار لوگ تختیاں لگانے کے بڑے شوقین تھے، ان کا یہ شوق اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ وہ پاکستان کے قیام پر بھی اپنی تختی لگوانے سے نہ کتراتے لیکن افسوس کہ یہ ان کے آنے سے 70,60 سال پہلے مسلمانان برصغیر اور مسلم لیگ (یہ مسلم لیگ ، ابجد کے حروف سے آزاد تھی) قائد اعظم کی قیادت میں بنا چکے تھے۔ کارنامے تختیوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ بانیٔ پاکستان کے طور پر قائدِ اعظم کا نام ہر زبان پر ہے۔ جرنیلی سڑک، جسے جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے، شیرشاہ سوری نے پشاور سے کلکتے تک بنوائی، کنوئیں کھدوائے پُل بنوائے۔ آج کہیں بھی ایسی تختی نظر نہیں آتی جس پر لکھا ہو کہ شہنشاہ ہند شیرشاہ سوری نے اس کا اپنے دست مبارک سے فلاں تاریخ کو افتتاح فرمایا لیکن تاریخ کی کوئی کتاب بھی اُٹھا کر دیکھ لیں شیر شاہ سوری کا نام ان کے کارناموں کے ساتھ جلی حروف سے لکھا پائیں گے۔ محترمہ ڈاکٹر صاحبہ سے گزارش ہے کہ ن لیگ کے ادھورے منصوبوں کو مکمل کر کے نئی تختیوں پر لکھوا دیں کہ وہ اس منصوبے کو ادھورا چھوڑ گئے تھے ، جسے ہم نے مکمل کرایا ہے اور آئندہ کے لیے تحریک انصاف کی حکومت منصوبوں کو افتتاحی تختیوں کی ’’تہمت‘‘ سے ہمیشہ کے لیے پاک کر دے ، ایک حکمنامہ جاری ہو کہ آئندہ کسی منصوبے کے سنگِ بنیاد رکھنے یا افتتاح کرنے کی کوئی تختی نہیں لگے گی جسے فلاح و بہبود کے کاموں کا شوق ہے وہ اس کا اجر بندگانِ خدا کی دعائوں کی صورت میں وصول کرے۔
٭٭٭٭٭
آسٹریلیا: مرغے کے ٹھونگوں سے خاتون قتل: واقعہ طبی تاریخ کا حصہ بن گیا
76 سالہ بڑھیا اپنے گھر کے صحن میں پالی ہوئی مرغیوں کے انڈے جمع کر رہی تھی جب مرغے نے حملہ کر دیا ٹھونگوں سے اتنا لہولہان کیا کہ وہ بے ہوش ہو گئیں اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیا۔ یہ صریحاً قتل کی واردات ہے اور خبر دینے کا مروج طریقہ یہ ہے کہ خبر میں یہ ضرور بتایا جاتا ہے کہ مجرم کا کیا بنا، گرفتار ہوا یا فرار ہو گیا، بعض واقعات میں قاتل موقعہ پر ہی لواحقین کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ ان تمام خامیوں کے باوجود خبر افسوسناک بھی ہے اور دلچسپ بھی ، مثلاً ہمارے ایک قاری کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ بڑھیا بے گناہ ماری گئی ، وہ بار بار پوچھ رہے ہیں کہ خونی مرغ کا کیا بنا؟ کئی توجیحات ہو سکتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ ورثا نے مرغ کو معاف کر دیا ہو یا بڑھیا کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں نے ذبح کر کے ضیافت مرگ جسے ہمارے ہاں قل بھی کہا جاتا ہے ، اہتمام کر ڈالا ہو، بڑھیا کی تو اسی طرح لکھی تھی لیکن اُس کے بعد بھی مرغیاں انڈے دیتی رہیں گی اور گھر والے انہیں اکٹھے کرتے رہیں گے لیکن عموماً مغربی ملکوں میں تشدد سے ہلاک کرنے والوں کو د ہشت گرد کہا جاتا ہے ایک اور بھی ذہن میں خلش پیدا ہو رہی ہے کہ بڑھیا کوئی پہلے دن تو انڈے اکٹھے نہیں کرنے لگی تھی، اس سے پہلے بھی وہ یہ کام کرتی رہی ہو گی، آخر اُس دن مرغ کیوںمشتعل ہو گیا، لگتا ہے کہ بڑھیا سے کوئی چوک ہو گئی جو اسے مشتعل کر بیٹھی ۔اُمید ہے کہ آئندہ احتیاط کی جائے گی کہ انڈے جمع کرنے کا کام گھر کے بڑے بوڑھے نہیں جوان کیا کریں ۔
٭٭٭٭٭