بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے دوسری بار انتخابی فتح حاصل کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کے اندر ظلم و ستم اور جبر و تشدد کی انتہا کر دی ہے۔ پورے مقبوضہ کشمیر کو جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اپنے سیاسی جمہوری سماجی معاشرتی معاشی اور مذہبی حقوق سے محروم کیے جا چکے ہیں۔ بھارت کی حکومت جنگی جنونیت انتہا پسندی اور کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ اور عالمی رائے عامہ کو مسترد کردیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ حالات کے تقاضے کے مطابق اس امر کی ضرورت ہے کہ پاکستانی قوم میں 1965ء کی جنگ کا جذبہ پیدا کیا جائے کیونکہ دنیا کی کوئی فوج اپنی قوم کے بھرپور اعتماد اور تعاون کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیت سکتی۔ ستمبر 1965ء میں جب بھارت کی افواج نے پاکستان کے دل لاہور پر شب خون مارا تو اس وقت کے دلیر حکمران جنرل ایوب خان نے پاکستانی قوم سے مختصر خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا۔ "پاکستانیو اٹھو اور لا الہ الا اللہ کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھو اور دشمن کو بتا دو کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے۔"
جنرل ایوب خاں کے ان چند الفاظ نے ہر پاکستانی کے دل میں ایمانی جذبہ پیدا کردیا اور پاکستانی قوم پاک فوج کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوگئی۔ 1965ء کی جنگ کے جذبے اور ماحول کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس نوعیت کے منفرد اور بے مثال جذبے کو صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ راقم اس جذبے کا عینی شاہد ہے۔ راقم کا جنرل نصیر اللہ بابر کے ساتھ باہمی احترام کا تعلق تھا جنرل نصیر اللہ بابر پانچ وقت کے نمازی اور مومن شخص تھے، انہوں نے بتایا کہ وہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ایک یونٹ کی کمانڈ کر رہے تھے، ان کے پائلٹ نے غلطی سے ہیلی کاپٹر کو بھارتی مورچے کے قریب اُتار لیا۔ جنرل نصیر اللہ بابر چونکہ صرف خدا سے ڈرتے تھے اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کا مقابلہ کرنا جانتے تھے لہٰذا انہوں نے اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھا اور بھارتی فوجی افسر پر اپنا پستول تانتے ہوئے کہا" ہینڈز اپ " آپ پاک فوج کے گھیرے میں آچکے ہیں لہٰذا ہتھیار ڈال دیں اور میرے ساتھ چلیں۔ بھارتی فوجیوں نے گھبرا کر اپنے ہاتھ کھڑے کر کے جنرل نصیر اللہ بابر کے ساتھ چلنا شروع کر دیا اور اس طرح جنرل نصیر اللہ بابر بھارتی فوجیوں کو قیدی بنا کر پاکستانی فوج کے مورچے کے پاس لے آئے۔ مفکرِ اسلام اور مفسر قرآن علامہ اقبال نے شاید اسی قسم کی صورتحال کے بارے میں یہ شعر کہا تھا۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
پاک فضائیہ کے محب وطن بے مثال لیڈر ائیر مارشل نور خان اور ائیر مارشل اصغر خان نے جو "فضائی گھوڑے" تیار کیے تھے، انہوں نے 1965ء کی جنگ کے دوران یادگار اور شاندار کارنامے انجام دئیے جو آج تک پاکستانیوں کے ذہنوں اور دلوں میں فخر اور مسرت کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ 6 ستمبر 1965ء کو سکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے صرف ایک منٹ کے اندر بھارتی فضائیہ کے پانچ طیاروں کو مار گرایا اور اس طرح بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ ایک بھارتی فوجی آفیسر نے 1965ء کی جنگ کے بارے میں اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ بھارتی فوجی لکھتا ہے کہ وہ پاک بھارت جنگ کے دوران واہگہ باڈر کے علاقے کا جی او سی تھا وہ میدان جنگ کا جائزہ لینے کے لیے واہگہ سرحد کے قریب پہنچا جہاں پر بھارتی فوج نے قبضہ کر رکھا تھا، اس نے دیکھا کہ بھارتی فوجی یونٹ کے کمانڈر کی جیپ جل رہی تھی اور بھارتی کمانڈر کہیں نظر نہیں آرہا تھا، چند منٹ کے بعد اسے گنے کے کھیت سے ایک شخص برآمد ہوتا نظر آیا جس نے اپنی کیپ اور بیج اُتارے ہوئے تھے اور اس کے بوٹ دلدل سے اٹے پڑے تھے، اس نے کہا کہ میں بھارتی فوج کا کمانڈر ہوں تو میں نے اسے جواب دیا کہ تم کمانڈر نہیں بلکہ قلی نظر آ رہے ہو۔
واہگہ بارڈر پر پاکستان کا عظیم سپوت میجر عزیز بھٹی شہید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ لاہور کا دفاع کر رہا تھا، دشمن کی توپوں کے گولے اس کے مورچے کے اردگرد گر رہے تھے مگر وہ وطن کے دفاع کے لئے اپنے مورچے میں ڈٹا رہا اور شہادت قبول کی۔ راقم اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم تھا۔ چند طالب علموں نے واہگہ سرحد پر جاکر اپنے فوجی بھائیوں کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب ہم سرحد پر پہنچے تو فوج کے جوان ہمارے جذبے سے بڑے متاثر ہوئے اور کہنے لگے آپ ہمارے لئے دعا کریں وطن کا دفاع ہماری ذمے داری ہے۔ زندہ دلان لاہور اپنے فوجی بھائیوں کے لئے کھانے کی دیگیں لے کر سرحد پر پہنچے۔ اس وقت کی حکومت نے نوجوانوں کو سول ڈیفنس کی لازمی تربیت دے رکھی تھی جو جنگ کے دوران کام آئی۔ ہر محلے میں نوجوانوں نے مورچے کھود رکھے تھے تاکہ دشمن کے فضائی حملے کی صورت میں ان کو پناہ گاہوں کے لئے استعمال کیا جاسکے۔ پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں نے قومی گیت لکھے جن کو گلوکاروں نے بڑے جذبے سے گایا تا کہ پاکستانی قوم اورپاک فوج کے جوانوں کے جذبات کو ابھارا جا سکے۔ پاک فوج کے جوان جب اپنے مورچوں میں ریڈیو پر قومی گیتوں کو سنتے تھے تو ان میں شہادت کا لازوال جذبہ پیدا ہوتا۔ملکہ ترنم نور جہاں کے اس نغمے نے پورے ملک میں نئی روح پیدا کر دی۔
اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویر و
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کھتی ہیں
پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقارعلی بھٹو جنگ کے بعد چین کے دورے پر گئے تو چین کے دانشور وزیراعظم چو این لائی نے بھٹو صاحب سے پوچھا کہ جب پاکستان کی فوج مقبوضہ کشمیر کے اندر داخل ہونے کے قریب تھی تو ارادہ کیوں تبدیل کر لیا، بھٹو صاحب نے جواب دیا کہ ہمیں لاہور کی فکر پڑ گئی تھی۔ وزیراعظم چو این لائی نے کہا کہ اگر بھارت کے فوجی لاہور کے اندر داخل ہو جاتے تو زندہ دلان لاہور ان کو ڈانگیں مارکر لاہور سے باہر نکال دیتے جبکہ پاک فوج مقبوضہ کشمیر کے اندر داخل ہو جاتی تو کشمیری عوام اس کو پھولوں کے ہار پہناتے ۔ افسوس پاکستان نے مقبوضہ کشمیر حاصل کرنے کا موقع ضائع کر دیا۔ آج پاکستان میں ایک بار پھر 1965ء کا جذبہ بیدار کرنے کی ضرورت ہے، یہ قومی جذبہ پاکستان کے حکمران سیاسی اور مذہبی رہنما علماء دانشور صحافی شاعر ادیب اور اساتذہ متحد ہو کر ہی پیدا کر سکتے ہیں۔
عزیزم معاذ ہاشمی نامور مصنف اور بہترین پبلشر کے طور پر اپنا مقام بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ انہوں نے درجنوں مقبول عام کتب شائع کی ہیں۔ ان کی نئی کتاب " اچھا باپ برا باپ" ہر حوالے سے منفرد معیاری اور اردو میں اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے۔ اس کتاب میں بچے کی ولادت سے اس کی شادی تک ان تمام سماجی نفسیاتی جذباتی اور اخلاقی مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے جن کا ہر بچے اور والدین کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کی معیاری اور مثالی نشو و نما اور تعلیم و تربیت کے خواہش مند ہیں ان کے لئے یہ کتاب بہترین رہنما ثابت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب ارشاد حسن خان اور نامور موٹیویٹر اور سکالر عزیزم قاسم علی شاہ نے کتاب "اچھا باپ برا باپ " کے بارے میں بہت اچھی رائے دی ہے جو کتاب کے بیک ٹائٹل پر شائع کی گئی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38