دوحہ میں جاری امریکہ طالبان مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتے چڑھتے رہ گئی۔ بلکہ دُنیا بھر میں جس خبر کی توقع کی جاری تھی، وہ تھی، ’’افغان امن امریکہ طالبان معاہدے پر دستخط ہو گئے‘‘۔ کہ اچانک ٹرمپ کے اس اعلان پر کہرام مچ گیا کہ امریکہ طالبان مذاکرات ختم۔ وجہ یہ بنی کہ مذاکرات سے ایک ہی دن پہلے، طالبان نے کابل دھماکہ میں متعدد بے گناہوں کی جان لے لی۔ ٹرمپ بھی غلط نہیں۔کہ ایک فریق نے خنجر پکڑا ہوا ہو اور دوسرے نے امن کا علم بلند کر رکھا ہو ، ایسا کبھی دیکھا نہ سُنا۔
دراصل اس غیر متوقع صورت حال نے افغانستان، امریکہ اور طالبان کے لئے کئی مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔ لیکن پاکستان بھی کم متاثر نہیں ہو گا۔ ٹرمپ پٹڑی سے اُتر گئے تو پھر کشمیر پر ثالثی کی پیشکش سے دستبرداری ’’ڈومور‘‘ اور طالبان کے ٹھکانوں کی رٹ شروع ہو جائے گی۔ پاکستان اپنی تاریخ کے نازک دور سے گزر رہا ہے۔ بھارت کی بی جے پی کی آڑ میں آر ایس ایس کی حکومت نے اپنے آئین میں سے مقبوضہ کشمیر کے متعلق خصوصی دفعات 370 اور 37 اے خدف کر کے ریاست کی نام کی متنازع اور آئینی حیثیت بھی ختم کر دی ہے۔
40 دن ہو رہے ہیں، کشمیری گھروں میں بند ہیں۔ ہر گھر پر ایک بھارتی فوجی پہرہ دے رہا ہے۔ جاں بحق یا شہید ہونے والوں کی نماز جنازہ پڑھنے اور کفن دفن کی اجازت نہیں۔ دوائیوں کی دکانیں عدم رسد کی وجہ سے خالی پڑی ہیں۔ علاج معالجہ کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ غرضیکہ، محرم الحرام میں، مقبوضہ کشمیر کربلا کا منظر پیش کر رہا ہے۔ حالات نے پاکستان کو چکی کے دوپاٹوں میں ڈال دیا ہے۔ اس مشکل گھڑی میں، امریکہ طالبان مذاکرات کا ختم ہونا، پاکستان کے لئے دھچکے سے کم نہیں۔
کابل میں طالبان کے دھماکے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اُن کی خودسری کا یہ عالم ہے۔ کہ وہ کسی ایک کی قیادت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ دھماکہ کرنے والوں کا تعلق افغان امن عمل میں حصہ لینے والے طالبان سے نہیں ہے۔ یہ کوئی اور گروپ تھا جو دوحہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا تھا۔
افغانستان میں خودکش دھماکے یا دہشت گردی میں کبھی کمی نہیں آئی۔ امریکہ کو مذاکرات ختم کرنے میں اتنی عجلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کم از کم اُن لوگوں کا ردِعمل دیکھ لینا چاہئے تھا جن سے مذاکرات ہو رہے تھے، اگر تو وہ اس دھماکے کی مذمت کرتے، تو معاہدے کو مکمل کر لینا چاہئے تھا۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ بعد میں طالبان کے امن کے حامی اور مخالفین آپس میں نٹتے رہتے افغانستان میں انتخابات ہونے والے ہیں، منتخب ہونے والوں کو امن کے حامی طالبان کی حمایت حاصل ہوتی اور یوں، دونوں فریق مل کر، امن کے مخالف طالبان، دہشت گردوں، داعش اور القاعدہ کے گروہوں کی بخوبی سرکوبی کر سکتے تھے۔ دوسری طرف طالبان کو بھی ردِعمل میں امریکہ کو یہ دھمکی نہیں دینی چاہئے تھی کہ امریکہ مذاکرات ختم کر کے پچھتائے گا۔
سوال یہ ہے کہ جب آپ کا دھماکہ کرنے والوں سے تعلق نہیں، دھماکہ میں آپ کسی طور شامل نہیں تو آپ کو امن مذاکرات کی میز پر بیٹھے دھماکہ کرنے والوں کی مذمت کرنی چاہئے تھی۔
اگرچہ، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بعض شرائط کے ساتھ طالبان سے دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ مگر مثلاً طالبان وعدوں پر عمل کریں، طالبان افغان قیادت کے ساتھ بیٹھیں، شدت پسند کارروائیوں میں کمی لائیں القاعدہ سے تعلق ختم کریں۔ پومپیو نے یہ بھی اعتراف کیا ہے۔ کہ ہم کابل حملے سے پہلے سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ ہم اب بھی مذاکرات کے لئے کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس کا انحصار طالبان کے برتاؤ پر ہے، بعض شرائط یقیناً معقول ہیں۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام ٹائپ، مذاکرات اور جپھیاں، فریقین کے درمیان مفاہمت کی بجائے عداوت پیدا کرتی ہیں۔
امریکہ کو یہ اندازہ تو ہو چکا ہو گا۔ کہ طالبان اُن لوگوں سے مختلف ہیں، جن سے آج تک امریکہ کو واسطہ پڑتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ شمالی کوریا ایسے شدت پسند اشترا کی، امریکہ سے مذاکرات کرنے لگے ہیں ، گزشتہ صدی میںکوریا، ویٹ نام اور کمبوڈیا میں لڑی گئی جنگوں کا خاتمہ اور امن کے معاہدے مذاکرات کے ذریعے ہی انجام پائے، جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے۔ ان کا مائنڈ سیٹ (شاکلہ) دُنیا بھر کے لوگوں سے بالکل مختلف ہے۔ اب تک پاکستان، اور افغانستان میں کی گئیں، دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش دھماکوں میں جاں بحق ہونے والوں میں بہ مشکل ایک فیصد غیر مسلم ہوں گے۔ باقی سب مسلمان تھے، اور لاتعداد لوگ ان سے کہیں زیادہ باعمل مسلمان تھے۔ طالبان ہوں، یا داعش، القاعدہ ہو یا اس نوعیت کی کوئی اور تنظیم مثلاً خوارج وغیرہ ان میں ایک ہی قدر مشترک ہے کہ وہ فیصلہ، دلیل کی بجائے تلوار کے بل پر کرتے ہیں۔ اسلام کی من مانی تعبیر کرتے ہیں، کوئی دلیل ان پر کارگر نہیں ہوتی۔ امریکہ کو غنیمت سمجھنا چاہئے تھا کہ اگر پاکستان کی کوششوں سے طالبان کا بااثر گروہ اور اُن کی اعلیٰ قیادت، امریکہ سے مذاکرات پر آمادہ ہو گئی تھی۔
نائن الیون کے سانحے کی دُنیا بھر کے مسلمانوں نے مذمت کی، بے گناہوں کی ہلاکت پر اُنہیں بھی اُتنا ہی صدمہ ہوا، جتنا امریکہ یا مغربی دُنیا کو۔ لیکن، امریکی ردِعمل اور عدم تحمل و برداشت نے وہ مسائل کھڑے کر دیئے۔ کہ جنہیں قومیں اور زمانہ برسوں بھگتے گا۔ امریکہ اپنی پوری قوت کے ساتھ افغانستان پر ٹوٹ پڑا۔ تب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی، جنہوں نے امریکہ کو طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے اس مسئلہ سے نبٹنے کے لئے، افغانستان کی تاریخ پیش نظر رکھنے اور ہوش مندی اور تدبر سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ مگر صدر بش جونیئر نے کسی کی نہ سُنی، اور بے خطر چھلانگ لگا دی۔ افغان جنگ میں امریکہ کے اپنے، افغانستان اور پاکستان کے جانی و مالی نقصانات کو جمع کیا جائے، تو دسیوں ٹون ٹاور تعمیر ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی ہر دو جانب سے جان شکنجے میں ہے، ایک طرف شدت پسند گروہ ہیں، اور دوسری طرف سے انتہاپسند ہندوؤں کی حکومت مودی سرکار، دُنیا بھرمیں کوئی معقول شخص حکومت، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی کارروائیوں کی حمایت نہیں کر رہا۔ سب کہہ رہے ہیں۔ بھارت غلط کر رہا ہے۔ لیکن جب ان حکومتوں اور لوگوں سے اس حوالے سے عملی اقدامات کی اپیل کی جاتی ہے، تو وہ جمع تفریق کے چکر میں پڑ جاتے ہیں۔ مالی مفادات اور بھارتی مارکیٹ اُن کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے۔، اگر بھارت، سوڈان یا انڈونیشیا ہوتا تو مسئلہ کشمیر کب کا حل ہو چکا ہوتا!! افغان طالبان کی انانیت کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ امریکہ سے مذاکرات کرنے کو تیار تھے لیکن کابل انتظامیہ کے حکمرانوں سے نہیں۔ وہ انہیں امریکہ کے نامزد سمجھتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں کہ کابل انتظامیہ منتخب لوگ نہیں بلکہ امریکہ کے ایجنٹ ہے تو بھی یہ منطق ناقابل فہم ہے کہ امریکہ سے بات چیت ہو سکتی ہے لیکن اُن لوگوں سے نہیں جو اُن میں سے ہیں اور جدی پشتی افغان ہیں۔ اس کا جواب طالبان یہ دیتے ہیں کہ افغان انتظامیہ کا اقتدار امریکی بیساکھیوں پر کھڑا ہے۔ وہ مذاکرات کی کامیابی کی متمنی ہی نہیں اور ان کے پاس کوئی اختیار بھی نہیں ہے۔ وہ امریکہ کے طفیلی اور اس کی کٹھ پتلی ہیں۔ اصل طاقت امریکہ کے پاس ہے لہٰذا افغان انتظامیہ سے مذاکرات لاحاصل ہیں۔
موجود ہ ماحول میں طالبان کبھی بھی جمہوریت کے قائل نہیں ہو سکتے، بدقسمتی سے سوویٹ یونین اور پھر امریکہ کی جارحیتوں نے ان کی شدت پسندی اور مغرب سے نفرت کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ یہاں سے واپسی میں اور دنیا کے ساتھ مل کر چلنے کی خو پیدا ہونے میں ایک یا دو نسلیں لگ سکتی ہیں۔ افغانستان بے پناہ مادی وسائل کا مالک ہے جو ترقی کے لیے ضروری ہیں لیکن انتہا پسندی نے افغانستان کو دُنیا کا پسماندہ ترین ملک بنادیا ہے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024