اداروں اور شہریوں کی عزت مساوی
مکرمی!کیاسرکاری افراد کی ایسی کاروائیوں کی وڈیو بنانا غلط جس سے وہ سرکاری افراد قانون کی تادیبی کاروائی کی زد میں آ سکتے ہیں، ان کی طرف سے کی جانے والی اپنے اختیار کی دھونس کے بل بوتے ایسی حرکات کی فلمبندی، جن کا دفاع قانون نہیں کرتا، کیا غلط ہے؟آئی جی پنجاب کی طرف سے پنجاب کے تمام تھانوں میں موبائل فون لے کر جانے پر پابندی عائید کی گئی ہے۔تھانوں میں سمارٹ موبائل فون لیکر جانے پر پابندی کے اس حکم نامے سے واضح ہوتا ہے کہ آئی جی پولیس بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ تھانوں میں عمومی ماحول اور رویہ یہی ہوتا ہے کہ اس کی وڈیو سوشل میڈیا پہ آجانے کی صورت قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروان و افسران کو قانون کی خلاف ورزی کے سنگین الزامات کی لپیٹ میں آنا پڑتا ہے۔شہریوں کو جس حیثیت میں رکھا گیا ہے وہ ملک کی بقاء اور سلامتی کے لئے بھی تباہ کن ہے کہ اس طرز برتائو سے شہری خود کو غلام،مظلوم ، بے بس بلکہ مفتوح کی تصور کرنے لگتے ہیں۔پاکستان میں اس حقیقت کا اعتراف ناگزیر ہے کہ پاکستان میں اداروں کی تقدیس نہیں بلکہ عوامی احترام اور عوام کو مقدم قرار دینے میں ہی ملک کی بقاء ہے۔انتظامیہ،پارلیمنٹ،حکومت،سرکاری و خود مختار ادارے و محکمے اور مسلح فورسز سمیت سب کا سرچشمہ عوام ہی ہیں،اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ انہی شہریوں سے درج بالا شعبوں میں جانے والے افراد،اپنے اور محکمے،ادارے کے مفاد کے لئے اپنے ہی لوگوں کے خلاف اختیارات کانا جائز استعمال کریں اور ایسے ذرائع پر پابندیاں عائد کر دیں کہ جن سے شہریوں کے خلاف سرکاری افراد،محکموں،اداروں کے اہلکاران و افسران کی ناجائز، خلاف قانون کاروائیوں کو سب کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ظلم و زیادتی پر مبنی ایسے روئیے سے محکمے ،ادارے اپنی رہی سہی ساکھ سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ (اطہر مسعود وانی لاہور)