خلد آشیانی نوابزادہ نصر اللہ خان ایک کہنہ مشق جہاندیدہ اور گرم و سرد چشیدہ صف اول کے سیاستدانوں کے سرخیل تھے۔ قومی اور ملکی اہم ترین مسائل پر ان کی گہری نظر رہا کرتی تھی۔ شہید بینظیر بھٹو کے دور ولادت عظمیٰ میں نوابزادہ صاحب (مرحوم) کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے جب تک وہ اس عہدے پر رہے اندرون اور بیرون ملک تصفیہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکمرانوں کی تصفیہ کشمیر کے حوالے سے کہہ مکرنیوں اور بدعہدیوں سے عوامی رائے عامہ کو آگاہ کرنے کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزاد کے متوالوں پر بھارتی افواج کے انسانیت سوز مظالم کی داستانوں کا غلغلہ لگا۔ اپنی تمام تر مساعی کے باوجود نوابزادہ نصراللہ خان سے مسئلہ کشمیر پر جب بھی بات چیت ہوئی تو متعدد بار انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ’’میں ایک بات صاف طور پر وٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ کشمیر کو جو ترجیح حاصل ہے یہ مجید نظامی کی بدولت ہے مجید نظامی واحد شخصیت ہیں جو تصفیہ کشمیر کو پاکستان کی زندگی اور موت کا مسئلہ خیال کرتے ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کے بغیر وہ اس دشمن ملک س ے کسی قسم کے تعلقات استوار کرنے کے حق میں نہیں جو پاکستان پر گھات لگائے بیٹھا ہے۔ اسی لیے وہ پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو چھوڑنے کی بجائے کشمیر کے عوام کو اپنی مسلح افواج کے ہاتھوں بدترین قسم کے ظلم و تشدد کا نشانہ بنا کر ان کی آواز دبانے پر عمل پیرا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تصفیہ کشمیر تقسیم برصغیر کے ایجنڈے کا حصہ ہونے کی بنیاد پر قیام پاکستان کے وقت ہی سے وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ اگرچہ اس مسئلہ کے لیے ادارہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادیں بھی موجود ہیں اور مخصوص ذہن کی بعض عالمی قوتوں اور بھارت کی مسلمان دشمنی کے باعث ان قراردادوں پر عمل نہ ہو سکا۔ مگر اس مسئلہ کے حل کے لیے بھارت کے زیر تسلط وادی کشمیر کے عوام میں جاری جدوجہد تحریک آزادی کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی ماند نہ پڑی نہ ہی پاکستان کی طرف اس مسئلہ کے حل کی عملی کوششوں میں کمی محسوس کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سفارتی سطح پر بھی تصفیہ کشمیر سے متعلق بات چیت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس حوالے سے ماضی کے ایک ایسے واقعہ کا تذکرہ بڑا برمحل ہو گا جس سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں ملک کے مایہ ناز دانشور صحافی مجید نظامی ؒ کے موقف کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ کم و بیش پانچ چھ عشرے قبل پاکستان میں بھارت کے ’’مسٹر پارتھا سارتھی‘‘ ہائی کمشنر تھے۔ ایک موقعہ پر بات چیت کے دوران میں اخبار نویسوں نے ان سے سوال کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تصفیہ کشمیر میں کیا رکاوٹ ہے؟ تو ان کا برجستہ انگریزی میں جواب تھا۔
''In one word , NIZAMI He is the only obstacle''
(ایک لفظ …نظامی…صرف وہ ہی رکاوٹ ہیں)
’’پارتھا سارتھی‘‘ کے جواب کا واضح مطلب یہ تھا کہ مجید نظامی کی موجودگی میں اسی مسئلہ پر کوئی درون پردہ تصفیہ نہیں ہو سکتا۔ یعنی کوئی اس پر سودے بازی کی جرأت نہیں کر سکتا۔
آزادیٔ کشمیر کے علمبردار مجید نظامی اپنی ز ندگی میں اکثر تقاریب کے موقعہ پر اپنے خطاب میں بڑی دل گرفتگی کے ساتھ اس بات کو دہرایا کرتے تھے کہ پاکستان کے عاقبت نا اندیش حکمرانوں نے تحریک آزادی کشمیر کو کامیابی سے ہمکنار کرانے میں کبھی کوئی موثر منصوبہ بندی نہیں کی۔ ان کی یہ دلیل حقیقت کی عکاس تھی کہ پاکستان میں منرل واٹر تو درآمد کر سکتے ہیں لیکن کشمیر کا پانی درآمد نہیں ہو سکتا جبکہ اسی پانی سے پاکستان کی زندگی اور روزی روٹی وابستہ ہے۔ اب جبکہ اسلام دشمن ہندو تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ کے بانی رکن وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کیخلاف اپنے خبثِ باطن کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینے کی عملی کوشش کی ہے۔ بلاشبہ بیداری ملت کا سہرا پاکستان کے سابقہ حکمرانوں کے برعکس موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے سر ہے۔ جس نے ہرچہ بادا بادا کہتے ہوئے بھارتی افواج کے انسانیت سوز مظالم اور بھارتی ہندو حکمرانوں کے اسلام اور مسلم دشمن عزائم کو ناکام بنانے کیلئے بھارت سے آخری معرکہ برپا کرنے کا عہد کر لیا ہے۔ اس عہد میں ان کی طرف سے اس عزم کا اعادہ بھی کیا ہے کہ وہ کشمیریوں کو مقام آزادی سے ہمکنار کرانے کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ کشمیریوں کا سفیر بن کر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بھارتی مظالم سے رائے عامہ کو آگاہ کریں گے اگرچہ مسئلہ کشمیر کا گزشتہ پون صدی دوران کئی مرتبہ ادارہ اقوام متحدہ میں تذکرہ سنا گیا۔ مگر اب کے اس عالمی ادارہ میں وزیر اعظم عمران خان کی زبان سے مظلوم کشمیر اور اسکے راہ آزادی میں جام شہادت پیش کرنیوالے کشمیری جوانوں عورتوں بچوں اور بوڑھوں کے تذکرے کے ساتھ اس خطے کی آزادی کے اقدامات کرنے کیلئے جو آواز سنی جائے گی وہ چار دانگ عالم کیلئے صدائے بازگشت کی حیثیت اختیار کرے گی یقیناً اس کے نتیجے میں کرۂ ارض کی حریت پسند اقوام بالخصوص ایسی اقوام میں بھارت کی افواج کے ہاتھوں راہ آزادی میں جانیں دینے والے مظلوم کشمیری عوام سے عملی طور پر دست تعاون دراز کرنے کی امنگ ضرور چٹکیاں لینے لگے گی جنہوں نے بیسیویں صدی میں قربانیاں دے کر غیر اقوام کی غلامی سے نجات حاصل کی تھی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024