محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور اسلامی چار حرام مہینوں میں سے ایک ہے۔ جن کا تقدس خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں قائم کیا ہے دور جاہلیت میں بھی عرب ان چار مہینوں کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور ان میں لڑائی جھگڑے کو حرام سمجھتے تھے اس لئے ان کا نام حرمت والے مہینے پڑ گیا۔ اسی مہینہ کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی تھی۔ اسی دن حضرت آدم علیہ سلام کی تخلیق ہوئی ، اسی دن جنت وجود میں آئی، اسی دن سفینہ نوح جودی پہاڑ پر رکی۔حدیث ہے کہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے ہیں۔ صدیوںقبل سے واقعہ کربلا کی یاد میں مرثیے لکھے جارہے ہیں اور فرقہ کوئی بھی ہو ہر مسلمان اس مہینہ کا احترام کرتا ہے۔ آج بھی نوحے اور مرثیے لکھے جارہے ہیں اور ہر شاعر کی حتی ٰ الوسع کوشش ہوتی ہے کہ ماہِ محرم اور واقعہ کربلا کے بارے میں لکھے۔ اسی لئے شعراء نے مختلف زبانوں میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ اہل ِ بیت کی شان بیان کرنے کے لئے دنیا کے تمام درخت ، قلم اور سمندر سیاہی بن کر بھی ادا نہیں کرسکتے۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔…؎
میں سوچتا ہوں کہ حق کس طرح ادا ہوگا
غمِ حْسینؓ زیادہ ہے، زندگی کم ہے
تمام شعراء کی طرح میں نے بھی عقیدت اور نذرانے کے طور پر کچھ اشعار کہے ہیں۔…؎
اس جان کے ورق پہ ہے لکھا ہوا حسین
آتا ہے میرے ہونٹوں پہ بے ساختہ حسین
مجھے ننگے سر کی کون سی وقعت یہاں یہ تھی
بخشی ہے آپ نے مجھے میری رِدا حسین
بے چینی حیات کا اب راز پالیا
میرا مرض یہ دنیا ہے میری دوا حسین
میر انیس نے مرثیہ گوئی میں ایسی شاندار مثال قائم کی جس کی نظیر اور ثانی آج تک نہیں ہے۔ میدان کربلا کا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ ہر مسلمان اور قاری خود کو میدان کربلا میں موجود تصور کرنے لگتا ہے۔ معصومین کی حالت ِزار اور چوٹوں کو اس طرح تصویر کیا ہے کہ ہر زخم خود اپنے دل پر لگتا ہوا محسوس ہوتاہے۔…؎
گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پر باندھے ہوئے سوار
پانی کا دم ودر کو پلانا خواب تھا
اک ابن ِفاطمہ کیلئے قحط ِ آب تھا
مولانا محمد علی جوہر کے شعر نے تو شہرہ آفاق حیثیت اختیار کرلی…؎
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد
علامہ اقبال نے تقریباً ہر موضوع پر اپنے عمدہ اور منفرد اْسلوب کیساتھ لکھا۔ ان کی اْردو وفارسی دونوں شاعری میں کربلا کے واقعات کا تذکرہ ملتا ہے۔…؎
صدق ِ خلیل بھی ہے عشق
صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدروحسنین بھی ہے عشق
حقیقتِ ابد ی ہے قیام شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
اسی طرح فارسی کلام میں ان کے سخن کی عمدہ مثالیں دیکھیے کہ…؎
سرابراہم واسماعیل بود
یعنی آں جمال راتفصیل بود
آن امامِ عاشقاں پور بتول
سرو آزادی زیستاں رسول
مرزا غالب کا یہ شعر تو بہت مشہور ہوا
بزم ترا شمع وگل خستگی
ہوترابساز ترازیروبم واقعہ کربلا
جوش ملیح آبادی نے اپنے نام کی مناسبت سے ہمیشہ پرجوش اور انقلابی شاعری کی اور اسی باعث شہرت پذیر بھی ہوئے۔ واقعہ کربلا کی مناسبت سے دیکھئے کیا خوبصورت اندازِ سخن ہے اور یہ بند آج کے آمر اور جابر حکمران پر بھی اسی طرح فٹ بیٹھتا ہے جس سوچ کے تحت انہوں نے اپنے حالات کے تناظر میں کہا ہوگا۔
کربلا اب بھی حکومت کو نگل سکتی ہے
کربلا تخت کوتلوئوں سے مسل سکتی ہے
کربلا خاک تو کیا آگ یہ بھی چل سکتی ہے
کربلا وقت کے دھارے کو بدل سکتی ہے
قدیم شعراء کے ساتھ اگر ہم جدید شعراء کے سخن پر نظر ڈالیں تو ہمیں واقعہ کربلا کے حوالے سے بے پناہ عمدہ اور خوبصورت کلام دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ انہیں میں سے حسن عباسی کا پیش کردہ سلام پڑھنے پر اتنا ہی تازہ، عقیدت بھرا اور محبت سے لبریز نظر آتا ہے جس طرح کی تازگی، دلکشی، محبت اور عقیدت پہلی دفعہ پڑھنے پر قاری کے دل پر وارد ہوتی ہے۔…؎
کرم کے بادل برس رہے ہیں دوام اْس پر سلام اْس پر
سلام اْس پر کہ فیض رب کا ہے عام اْس پر سلام اْس پر
وہ زیرِ خنجر غازی ایسا کہ آج تک ناز کررہے ہیں
رْکوع اس پر سجود اْس پر قیام اْس پر سلام اْس پر
دوسری طرف نثر میں بھی عقیدت کے پھول شاعری کے باغ کی طرح سرسبزوشادات ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024