ماہ محرم نئے سال کے آغاز کی نئی صبح کی نوید کے ساتھ خانوادہ رسول ا کی لازوال قربانیاں یہ پیغام دیتی ہیں کہ لاالہ اللہ کیے لئے جناب حسینؓ سے لیکر جناب علی اصغر تک خاندان رسول ا اور جناب علیؓ اور سیدہ کائنات فاطمۃ الزہرہؓ کے بیٹوں نے اپنا خون اور قیدی پاک بیبیوں نے سیدہ زینب ؓ کی قیادت میں کوفہ سے شام تک کا سفر حق اور نانا کا دین بچانے کے لئے کیا تھا اور یہ درس دیا کہ ظالم، فاسق، فاجر حکمران کے سامنے ڈٹ جائو ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید ہو جائو گے۔ اللہ کریم کے نام پر لٹنے والے اللہ کے محبوب ہوتے اور اللہ کو راضی کرنے والے ہی دنیا سے کامیاب لوٹتے ہیں۔
جب جناب حسینؓ بچے ہیں تو محبت کا عالم ہے کہ اگر نماز میں آقا کریم کی پشت پر سوار ہوتے ہیں تو اللہ کے نبی اپنا سجدہ لمبا کر دیتے ہیں۔ جب ایک صحابیؐ پشت سے اتارنے کے لئے آگے بڑھتا ہے تو وجہ تخلیق کائنات ہاتھ کے اشارے سے منع فرما دیتے ہیں جب حسنین کریمینؓ خلیفہ عمرؓ کے بیٹے کو کہتے ہیں آپ ہمارے غلام کے بیٹے ہیں تو خلیفہ بیٹے کو کہتے ہیں کہ ان سے جلدی لکھوا کر لے آئیں تا کہ وہ سند بن جائے ۔آقائے دو جہاں کائنات کے مالک جب بچپن میں حسنؓ اور حسینؓ کی کشتی کروا رہے تھے تو بار بار کہہ رہے تھے کہ شاباش حسینؓ، شاباش حسینؓ، سیدہ فاطمۃ الزہرہ عرض کرتی ہیں بابا حسنؓ بھی تو آپ کا بیٹا ہے۔ آپ بس حسینؓ کو ہی کہہ رہے ہیں۔ آقا کریم ا فرماتے ہیں فاطمہ پتہ ہے جناب جبرائیل بھی کھڑے ہیں وہ بھی حسینؓ کو ہی کہہ رہے کہ شاباش حسینؓ، شاباش حسینؓ۔میرے آقا کریم کے چاہنے والو! جس حسین ؓ کو آقا کریم کندھوں پر بٹھاتے رہے جنہیں اپنی زبان چساتے رہے جب ان پر تیر چلے ہونگے تو آقا کریم ا کی گنبد خضرا میں کیا کیفیت ہوگی۔ جب جناب حسین ؓ جناب علی اصغرؓ کو گود میں اٹھا کر کربلا میں کپڑے میں لپیٹ کر لے گئے ہونگے اور جانے سے پہلے پاک بی یی سیّدہ شہر بانو ؓ نے پیارے سے ننھے علی اصغرؓ کو نیا کرتا پہنا کر شہادت کے لئے جناب حسینؓ کے ہاتھوں میں دیا تھا تو کوفیوں نے سمجھا کہ کپڑے میں قرآن ہے۔ مگر جب حسین نے کپڑا ہٹایا تھا تو ننھا علی اصغر پیاس کی وجہ سے ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا آقا حسین ؓ نے کہا تھا کہ تمہاری دشمنی مجھ سے ہے تمہیں میری جان چاہئے اس ننھے علی اصغر نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ۔
مسلمانو! آج لمحہ فکریہ ہے کہ آج میرے آقا کی امت کس طرح برباد ہو رہی ہے اور ہاں سنو! پاک بی بی سیدہ زینب ؓ چادر کے اندر کچھ چھپا کر لاتی ہیں بھائی حسینؑ پوچھتے ہیں بہن چادر میں کیا ہے کہتی ہیں پہلے وعدہ کرو آج جو مانگوں گی آپ عطا کریں گے۔ جناب حسینؑ وعدہ فرماتے ہیں۔ پھر کیا ہوا پہلے دل پر ہاتھ رکھو مسلمانو! چادر اٹھاتی ہیں کہ عون محمد بی بی کی پاک چادر کے نیچے تھے۔ میرے آقا کریم ا کی گود میں کھیلنے والی سیّدہ آج بھائی سے کیا مانگ رہی ہیں کہ بھیا نانا کے دین پر قربان ہونے کے لئے عون محمد کو قبول فرمائیں اور پھر پتہ ہے کہ جب عون زخمی ہوتے ہیں تو آپ کی چیخیں نکلتی ہیں پھر جناب حسینؑ میدان میں جا کے پوچھتے ہیں بیٹا زخموں میں تکلیف ہے۔ عرض کرتے ہیں نہیں بابا، نانا حوض کوثر لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ سنو ! میں حسین ابن علی کا بیٹا ہوں ہم محمد مصطفی کے سب سے قریب ہیں میں اپنے نیزے سے اس وقت تک لڑوں گا جب تک ٹوٹ نہ جائے اور تلوار سے اس وقت تک جب تک یہ ٹیڑھی نہ ہوجائے۔ کوفی فوج سے کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ کوئی مقابلہ پر آئے پھر فوج یزید میں گھس کر سو اسلام کے دشمنوں کو واصل جہنم کرکے خیموں میں لوٹتے ہیں۔ عرض کرتے ہیں بابا ایک گھونٹ پانی مل جائے تو ساری یزیدی فوج کو ختم کر دونگا۔ آقا حسینؑ اپنی زبان اقدس آپ کے منہ میں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں بیٹا جائو عنقریب میرے نانا آپ کو جام پلائیں گے پھر کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ پھر پلٹتے ہیں اور سینکڑوں کو واصل جہنم کرتے ہیں۔
صبح جب ایک کے بعد ایک سب شہید ہوگئے تو جناب حسین خیمہ میں آئے اور سب بیبیوں کو آخری سلام کیا اور کہا زینب میرے بعد آپ سب کو قیدی بنایا جائے گا۔ اب وہ گھڑی آگئی جس کی خبر آقا کریم کو دے دی گئی تھی۔ خیموں میں دیکھو کیا ہے۔ شہداء ہیں۔ پاک بیبیاں ہیں۔ سیّدہ زینبؓ ہیں جو اپنا سب کچھ لٹا چکی ہیں۔ شہید اعظم کے جانے کا وقت ہے پھر آپ امام زین العابدینؓ کے خیمے میں آتے ہیں اور کہتے ہیں بیٹا اٹھو اور اپنے بابا کا آخری سلام قبول کرو۔ جناب سجاد بستر بیماری سے اٹھتے ہیں دیکھتے ہیں جناب حسینؓ کا لباس خون سے رنگین ہے آپ عرض کرتے ہیں بابا مجھے بھی قربانی کی اجازت دو ۔ آپ فرماتے ہیں نہیں بیٹا آپ کا امتحان ابھی شروع ہونا آپ نے ابھی بیبیوں کے ساتھ جاکر یزید کے دربار میں خطبہ دینا ہے۔ پھر جناب حسینؓ میدان میںاُترتے ہیں اور کہتے ہیں۔ اے لوگو ! مجھے پہچانو میں کون ہوں میں تمہارے رسول کا بیٹا ہوں میں وہ ہوں جس کو تمہارا رسول اپنے کندھوں پر سوار کرتا تھا۔ میں وہ ہوں جس کو تمہارا رسول سینے پر سلاتا تھا۔ میں وہ ہوں جس کے لئے تمہارا رسول کہتا تھا حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں ۔ میں وہ ہوں جب میں نماز کے دوران پشت پر سوار ہوتا تھا تو آپ کا رسولؐ سجدے کو طویل کر دیتا تھا کہ کہیں حسینؓ کو تکلیف نہ ہو۔
لٹا پٹا قافلہ جب دربار یزید میں پہنچتا ہے تو بی بی زینب تاریخی خطبہ شروع کرتی ہیں تو اذان کی آواز آتی ہے آپ رک جاتی ہیں اور جب موذن اشہد ان محمد رسول اللہ کہتا ہے تو بی بی کہتی ہے یزید تو سمجھ رہا ہے کہ تیری جیت ہو گئی۔ دیکھ آج کس کا نام لیا جا رہا ہے تیری جد کا یا میری جد کا ۔
جب سیدہ زینبؓ آل رسول کے لٹے پٹے قافلے کو لے کر واپس مدینہ پہنچتی ہیں تو سب سے پہلے اپنی والدہ سیدہ فاطمۃ الزہرہ کی قبر پر امام زین العابدینؓ کے ساتھ حاضری دیتی ہیں عرض کرتی ہیں۔
(اماں جھولی بھر کے گئی تھی خالی جھولی آگئی ہوں)
مسلمان بھائیو! آج دنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے کوئی روکنے والا نہیں ہے کربلا کے بعد روز ایک نئی کربلا سجتی ہے۔ ہمیں کلمہ بہت سستا مل گیا ہمارا علی اصغر علی اکبر جناب قاسم اور عون محمد جاتے تو ہمیں پتہ چلتا اس کی قدر کیا ہے ۔
آج پیغام حسین ہے کہ کائنات میں زندہ رہنے کے لئے فلسفہ حسین پر عمل ضروری ہے ۔ پھر دیکھیں کہ …؎
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024