ایک مشہور مورخ ٹوائن بی قوموں کی حیات میں مسلسل جدوجہد اور قربانی کو اہم عنصر گردانتا ہے، جن معاشروں میں ان محرکات کو صفِ اول کی حثیت دی گئی۔ وہاں جلد یا بدیر ایسے معاشرے نے جنم لیا جو سچائی ، صداقت اور راست بازی پر مبنی تھا۔ امام حسینؑ نے بھی حق اور صداقت کے لیے قربانی دے کر اس معاشرے کی بنیاد رکھ دی تھی جس کے تصورات میں انصاف ، رواداری اور حکمرانی کے اعلیٰ ترین اصولوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ انہوں نے اس بات کا بھی تعین کر دیا کہ ایک حکمران کے اعلیٰ اوصاف میں پاکیزگی، سچائی اور راست بازی کے سوا کسی معاشرے کی مضبوطی میں صالح اور راہنما اصول اہم کردار ادا کرتے ہیں کسی ملک کے استحکام کے لیے ان اصولوں کے سوا معیشت، خارجہ پالیسی اور دفاع کی اہمیت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ دنوں باغبانپورہ کالج میں شعبہ تاریخ کی طرف سے ہونے والے چھ ستمبر یوم دفاع کے حوالے سے پروگرام میں اس بات کی اہمیت پر زور دیا گیا کہ قوموں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو قربانی مانگتے ہیں۔ بوڑھے ماں باپ سے ان کی زندگی کا آخری سہارا لے کر قربانی مانگتے ہیں قربانی کی داستانیں تو اسی طرح ہی رقم ہوتی ہیں۔ سروں پر کفن باندھ کر سرفروشانِ وطن رزم گاہ حق و باطل کا رُخ کرتے ہیں۔ آزادی اور ہمارے سُکھ چین کے لیے دیوانہ وار لڑتے ہیں۔ کچھ جامِ شہادت نوش کرتے ہیں اور کچھ غازی بن کر وطن کی آزادی وقار اور تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بقول شاعر۔
یہ راہِ عشق ہے مقتل سے ہو کے جاتی ہے
سو اس سفر میں کوئی دل میں ذکر نہیں آتا
تقریب کے مہمانِ خصوصی چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے داخلہ مسرت جمشید چیمہ اور پی ٹی آئی رہنما جمشید اقبال چیمہ نے روایتی انداز سے ہٹ کر نئے طرز پر پروگرام پیش کرنے پر شعبہ تاریخ کی کاوشوں کو سراہا۔ شعبہ تاریخ کا یہ طرۂ امتیاز رہا ہے کہ تاریخی تقریبات اور پروگراموں سے نہ صرف اس شعبہ نے خود کو منوایا ہے بلکہ بڑی سطح پر بھی اس شعبے کو پذیرائی ملی ہے۔ 2014 ء میں قائد ڈے کے حوالے سے ڈائریکٹر جناب ظفر عنایت انجم ڈپٹی ڈائریکٹر جناب محمد زاہد میاں اور ڈپٹی ڈ ائریکٹر جناب منور حسین نے کالج کے پروگرام میں شرکت کر کے نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ شعبہ تاریخ کے اساتذہ کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے شعبہ تاریخ کو سرٹیفکیٹ سے نوازا۔ 2015ء میں ڈپٹی ڈائریکٹر زاہد میاں نے شعبہ تاریخ کو سند سے نوازا اور 2016ء میں محمد زاہد میاں نے اس شعبہ کی اعلیٰ کارکردگی پر حوصلہ افزائی کی سند سے نوازا۔ حوصلہ افزائی درحقیقت آگے بڑھنے اور وسیع تر مفاد کے لیے کام کرنے کے جذبے کو اجاگر کرتی ہے۔ یوم دفاع کے سلسلہ میں ہونے والے پروگرام میں یہ سبق دیا گیا کہ جو زمین لہو سے سیراب ہوتی ہے۔ اس کا ایک ہی سپاہی اپنے سے دس گنا بڑی طاقت سے لڑنے کا ہُنر جانتا ہے۔ ملک ایک گھر کی طرح ہوتا ہے۔ اگر گھر کی دیوار توڑ کر کوئی اندر داخل ہونے کی جرأت کرتا ہے تو اس کا کیسے سواگت کیا جاتا ہے چھ ستمبر کے معرکے نے کھول کر واضح کر دیا۔ حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے کہ آزادی کی صرف ایک قیمت ہے اور وہ ہے مسلسل بیداری جو قومیں بیدار رہتی ہیں، دشمن ان قوموں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا ہے۔ مسرت جمشید چیمہ نے کہا کہ ہمارا ہمسایہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اس کا مقابلہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے کہ ہمیں بیدار رہنا ہے۔ ہمارے بہادر افواج اس سیسہ پلائی دیوار کی مانند ہیں، جس کے سپوت جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑنا جانتے ہیں۔ امام حسینؓ کی شہادت کا بھی یہی مقصد تھا کہ حق اور صداقت کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنا مومن کا شیوہ ہے۔ تب کہیں جا کر اُس معاشرے اور ریاست کا خواب پورا ہوتا ہے، جس کی بنیاد سچائی، حق اور انصاف پر رکھی جاتی ہے اور یہی کامیابی کا راز ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024