عدل کا تقاضہ
صاحبو! کل پانچواں درویش بتا رہا تھا کہ عمران خان نے قوم کو خوشحالی کا خواب دکھایا۔ کرپشن کو نتھ ڈالنے کا عزم کیا۔ پروٹوکول کلچر اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی بات کی۔ غیر ملکی قرضوں کے لئے کشکول توڑنے کا عہد کیا اور تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ لوگوں کو پی ٹی آئی کا منشور پسند آیا اور لوگ عمران خان کے ساتھ ہو لئے۔ عمران خان چلتا رہا اور قافلہ بنتا گیا۔ عوام نے احتجاج اور دھرنے کے دنوں میں بھی پی ٹی آئی کا بھرپور ساتھ دیا۔ پھر 2018ء کے انتخابات آ گئے۔ عوام نے عمران خان پر اعتماد کیا اور پی ٹی آئی سے توقع باندھی کہ یہ پارٹی پاکستان کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کی مخلصانہ کوشش کرے گی۔ پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہو گا اور عوام کو ان کے حقوق ملیں گے۔ عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد رنگ لائی۔ پی ٹی آئی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور عمران خان ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے بحیثیت وزیراعظم قوم سے پہلا خطاب کیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ خطاب خطاب نہیں تھا بلکہ گفتگو تھی جو ایک رہنما عوام سے کر رہے تھے۔ دراصل یہ گفتگو عمران خان کے دکھڑوں کی کہانی تھی۔ عوام کی محرومیوں کی کہانی پاکستان کی خستہ حالی کی کہانی‘ خارجہ محاذ پر ناکامی کی کہانی‘ لوگوں کو بروقت طبی سہولیات میسر نہ آنے کی کہانی‘ امیر کے امیر تر بننے کی کہانی‘ پاکستان میں کرپشن کی فضا پروان چڑھنے کی کہانی‘ ملک میں رواج پانے والی ناانصافیوں کی کہانی‘ ملک کے مقروض ہونے کی کہانی‘ پاکستان کی دولت لٹنے کی کہانی‘ اس دولت کے بیرون ملک منتقل ہونے کی کہانی‘ مظلوم کشمیریوں پر حکومتی عدم توجہی کی کہانی۔ اس دن لگ رہا تھا کہ عمران خان کو تمام مسائل کا مکمل ادراک ہے۔ ان کی سوچ عام آدمی کی سوچ لگ رہی تھی وہ مسائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی بتا رہے تھے۔ ان کا عزم تھا کہ وہ پاکستان کو مسائل کی دلدل سے نکال کر پاکستان کے استحکام کے لئے کام کریں گے۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے حکومتی اللوں تللوں پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے سادگی اور کفایت شعاری کی پالیسی اپنانے کا بھی عزم کیا۔ اس پالیسی کو ساتھی قیادت اور خود پر لاگو کرنے میں پہل کرنے کا بھی عہد کیا۔ ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کو آگے بڑھانے کی بات کی۔ سچ یہ ہے کہ ریاست مدینہ میں عدل کو اولین ترجیح حاصل تھی۔ اب عدل کا تقاضا ہے کہ یہاں منصفانہ سوچ کو رواج دیا جائے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ یہاں حکومتیں مفاد پرستانہ سوچ کو پروان چڑھاتی رہی ہیں جس بھی شخص کے مفادات جس بھی پارٹی سے جڑے ہوتے وہ اپنی قیادت کے جھوٹ کو بھی سچ ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا۔ آج کے معاشرہ میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ سچا کون ہے بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس کا کس پارٹی یا گروپ سے تعلق ہے۔ اسی لئے یہاں غیر منصفانہ سوچ نے جنم لیا۔ ہمیں اس سوچ کو بدلنا ہو گا۔ کیونکہ جھوٹ‘ سفارش‘ اقربا پروری‘ مفاد پرستانہ سوچ اور غیر منصفانہ رویہ اور کردار عدل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ عمران خان اور اس کی ساتھی قیادت اگر واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو انہیں منصفانہ کردار اپنانا ہو گا۔ ان کی پارٹی کا بڑے سے بڑا عہدیدار بھی اگر غلطی کرے تو اسے عدل کے شکنجہ سے گزرنا ہو گا۔ دوسری بات یہ کہ پی ٹی آئی حکومت کو قائم ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں ان دنوں میں عوام مہنگائی کا طوفان اپنی طرف بڑھتا دیکھ رہے ہیں۔ نظام حکومت چلانے کے لئے عوام پر مہنگائی کا بوجھ لادنا کہاں کی جمہوریت ہے اور کہاںکا عدل؟
پانچواں درویش پھر بولا یہ ٹھیک ہے کہ عمران خان کوئی مذہبی رہنما نہیں مگر انہوں نے کھل کر حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اظہار ضرور کیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ مغرب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لئے (خاکم بدہن) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا رہا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کے لئے گستاخانہ خاکے بھی چھپتے رہے۔ اب ایک لعنتی رکن پارلیمنٹ گریٹ نے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ مقابلہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول تھا۔ اس لئے مسلمان سراپا احتجاج ہوئے۔ ایسے میں عمران خان نے بحیثیت وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنا کردار ادا کیا اور دنیا پر یہ واضح کیا کہ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی سے مسلمانوں کو کس قدر تکلیف پہنچتی ہے۔ انہوں نے مسلمان ملکوں کی تنظیم او آئی سی کے پلیٹ فارم سے مسئلہ اٹھانے اور اقوام متحدہ میں اس مسئلہ کو لے جانے کا بھی عزم کیا۔ پھر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حکومتی سطح پر ہالینڈ حکومت سے رابطہ کیا۔ اس بھاگ دوڑ کے نتیجہ میں ملعون اپنے ارادوں سے باز آیا اور یہ مقابلہ رک گیا۔ سچی بات ہے کہ عوام عمران خان اور حکومت پاکستان کے اس کردار کو قدر کی نظر سے دیکھتی ہے۔