روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت
آج ایک ایسے وقت پر جب امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے اپنی نئی پالیسی ترتیب د یتے ہوئے افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہرایا ہے اور وزیر خارجہ پومپیو کے ذریعے پاکستان کو سخت پیغامات بھی بھیجے جا رہے ہیں۔ ایک طرف واشنگٹن نے پاکستان کی فوجی امداد معطل کر دی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات امریکی عہدے داروں کے جھوٹے دعوؤں کی وجہ سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں ۔ تو پاکستان پر بڑھتا ہوا امریکی دباؤ، ہمسایہ ممالک روس اور چین سے اس کے رابطوں کو تقویت دے رہا ہے۔
ایک طرف امریکہ کی شہ پر مودی پاکستان کو پوری دنیا میں تنہاء کرنے کیلئے سرگرم ہیں۔ کبھی تو وہ بیجنگ میں ہونیوالے جی ٹوینٹی کے اجلاس اور لاؤس میں آسیان کانفرنس کے دوران پاکستان کیخلاف زہر اگلتے ہیں اور ان اجلاسوں میں شریک سربراہان مملکت کو باور کرانے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ اس پر پابندیاں لگائی جائیں اور اسے تنہا کر دیا جائے۔یہاں تک کہ وہ پاکستان کو دوست مسلم ممالک سے بھی دور کرنے کیلئے سرگرداں ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کی ترقی بھارت سے دیکھی نہیں جا رہی۔ سی پیک بھارت کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے۔ سی پیک کی مودی اور انکی انتظامیہ کی طرف سے شدید مخالفت ہورہی ہے۔
افغانستان اور پاکستان مخالفت میں امریکہ بھی بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے ۔ امریکی رویہ اس حد تک مخاصمت والا ہوگیا ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کے وجود میں آتے ہی پومیپو دھمکیاں دینے آن پہنچے۔ پاکستان کی سپورٹ فنڈ سے ملنے والی فوجی گرانٹ بند کرنے کا اعلان کیا۔ ان حالات میں ضروری ہوگیا کہ ہم چین اور روس کے ساتھ اپنے تعاون بالخصوص دفاعی تعاون کو مضبوط بنائیں اور انکے ساتھ تعلقات میں کوئی دراڑ پیدا نہ ہونے دیں۔ ہمیں آج چین اور روس کے تعاون کی زیادہ ضرورت ہے۔
پاکستان اور روس کی دوستی تو خطے پر ایک نیا سورج اْبھرنے والی بات ہے کہ یہ دونوں ممالک دوستی کی کوئی طویل تاریخ نہیں رکھتے۔ لیکن چند برسوں سے دونوں ممالک مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔روس نے پاکستان کو اسلحے کی فروخت پر عائد پابندی ختم کر دی ہے اور پاکستان ،روسی جنگی طیارے اور دوسرا سازو سامان خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے دونوں ممالک کے تعلقات میں اضافہ خطے کے مفاد ہی میں ہے۔
گزشتہ ماہ وزارت دفاع میں پہلے پاک ،روس مشترکہ فوجی مشاورتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستانی فوجیوں کی روس میں تربیت کاتاریخی معاہدہ طے پا گیا۔ پہلی مرتبہ پاک فوج کے جوان روس میں فوجی تربیت حاصل کریں گے۔یعنی مذکورہ معاہدے کے تحت پاکستانی فوج کے اہلکار اب روس کے عسکری اداروں میں تربیت حاصل کر سکیں گے۔ پاکستانی وفدکی قیادت سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضمیرالحسن شاہ جبکہ روسی وفد کی قیادت نائب وزیر دفاع الیگزینڈر فومین نے کی۔روسی نائب وزیر دفاع نے کہا کہ دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے عالمی سطح پر مربوط تعاون کی ضرورت ہے جبکہ پاک فوج کی دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں لائق تحسین ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے حالیہ برسوں میں پاکستان اور روس کے تعلقات میں بتدریج بہتری آرہی ہے اور پاکستان اور روس کے درمیان تازہ معاہدہ بھی اسی بات کا مظہر ہے۔
روس کے سینٹر فار اینالسس آف اسٹریٹجی اینڈ ٹیکنالوجیز کے ڈپٹی ڈائریکٹر کانسٹینٹن میکنکو کا کہنا ہے کہ روس نے اب پاکستان کو ایس یو 35 لڑاکا طیاروں کی پیشکش کی ہے۔ روس بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتا، تاہم ففتھ جنریشن پروگرام سے متعلق بھارتی رویے کی وجہ سے روس کو پاکستان میں ایس یو لڑاکا طیاروں کو فروغ دینا چاہیے۔ دوسری صورت میں، چین، جنوبی کوریا یا ترکی کی کمپنیاں تقریباً پانچ برس میں اس مارکیٹ پر چھا جائیں گی۔
گزشتہ برس آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دورہ روس پرکہا تھا کہ پاکستان روس کے ساتھ باہمی فوجی تعاون بڑھانے کا خواہاں ہے۔ روس نے بھی پاکستان کے ساتھ فوجی تعاون بڑھانے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ آرمی چیف کی طرف سے روس کا دورہ بھی پاکستان کے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کی کڑی اور نئے خطوط پر استوار کی گئی خارجہ پالیسی کا حصہ اور بھارت کے جنگی جنون کے پیش نظر ایسا ناگزیر بھی ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان 2016ء اور 2017ء میں مشترکہ فوجی مشقیں بھی ہو چکی ہیں۔
پاکستانی فوج کے سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان روس سے کسی قسم کا دفاع سازوسامان خریدنا چاہیے گا تو اس لیے یہ ضروری ہو گا کہ روسی سازوسامان استعمال کرنے کی تربیت پاکستان کے فوج کے اہلکاروں کو پہلے سے حاصل ہونا ضروری ہے تو میرے خیال سے اس لحاظ سے یہ معاہدہ اہم ہے۔ اگر انسداد دہشت گردی کے لیے روس اور پاکستان کے درمیان باہمی تعاون بہتر ہوا ہے اور خاص طور پر داعش کے خلاف خطے کے دیگر ملکوں کے درمیان جو مفاہمت پیدا ہوئی ہے تو اس حوالے سے پاکستانی فوجیوں کا روس کے فوجی اداروں میں تربیت حاصل کرنا اہم ہو گا۔
رواں سال ہی پاکستان اور روس کے درمیان پہلے بین الوزارتی سطح کے مذاکرات ہوئے تھے جس میں دفاعی شعبے میں تعاون بڑھانے کے علاوہ خفیہ معلومات کے تبادلے اور سائبر سیکیورٹی جیسے شعبوں میں قریبی تعاون کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
موجودہ دور میں پاکستان کو توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ امریکا نہیں چاہتا کہ پاکستان معاشی طورپر طاقت ور ہو لہذا اس کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان ہر لحاظ سے کمزور ہو ۔امریکہ نے پاکستان کو ہمیشہ جنگ اور تصادم کی طرف ہی دھکیلا ہے۔ لہٰذا اب پاکستان دوسرے ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔ بھارت نواز امریکی پالیسی نے بھی پاکستان کو امریکا سے بدظن کیا ہے۔
پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنا اب بھارت کی علانیہ پالیسی ہے۔ روس کی افواج کو بھارت نے بہت سمجھایا اور پاکستان کے ساتھ مشقوں وغیرہ میں حصہ لینے سے روکنے کی بھارت نے پوری کوشش کی مگر روس نے دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت کی ایک نا سنی اس وقت بھارت کا جنگی جنون سر چڑھ کر بول رہا تھا اوربھارت کسی بھی حد تک جاسکتا تھا مگرروس نے خطے کے بگڑتے ہوئے حالات میں بھارتی واویلے کو پس پردہ رکھتے ہوئے اپنی فوجیں پاکستان کے ساتھ مشقوں کے لیے بھیج دیں جس سے بھارت کی نیندیں حرام ہوگئیں۔امریکہ کی طرف سے بھی پاکستان کے ساتھ نائن الیون کے بعد پندرہ سولہ سالہ قربت کے باوجود سرد مہری کے رویئے نے پاکستان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوئی اور ایک ملک پر دفاعی انحصار کے بجائے چین اور روس کے ساتھ روابط بڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار روس اور پاکستان کی آپس میں بڑھتی ہوئی اس قربت کو بہت اہم قرار دے رہے ہیں۔