جمعتہ المبارک ‘ 3محرم الحرام 1440 ھ ‘ 14 ستمبر 2018ء
ایک اور اداکارہ کا ٹرمپ کیخلاف کتاب لکھنے کا اعلان
امریکی صدر ٹرمپ کی بے لگام جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے دنیا میں تو ان کے بے شمار ناقد موجود ہیںخود امریکہ میں بھی ان کیخلاف بے شمار لوگ بڑھ چڑھ کر باتیں کر رہے ہیں۔ الزامات کی بوچھاڑ صرف کہنے سننے کی حد تک ہو تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ انسان بھول جاتا ہے مگر خود امریکہ میں زبانوں کے ساتھ ساتھ بے شمار قلم بھی صدر ٹرمپ کیخلاف آگ اگل رہے ہیں۔ اب ظاہر ہے لکھا ہوا مٹایا نہیں جا سکتا۔ کتابیں کچی پنسل سے نہیں لکھی جاتیں یہ تو مستند تحریر مانی جاتی ہیں۔ یورپ اور امریکہ کا تومعیار بھی نرالا ہے۔ وہاں کسی پر آپ یکدم جھوٹا الزام لگا نہیں سکتے۔ ہتک عزت کا سخت قانون ہے۔ وہاں الزامات کی سیاست نہیں چل پاتی۔ یہ صدر ٹرمپ کی بدقسمتی ہے یا اعمال کا شاخسانہ جو شامت اعمال بن کر سامنے آ رہا ہے۔ کئی خواتین، ماڈلز اور اداکاراﺅں کی طرف سے ان کی دست درازیوں کی کہانیاں اگر جمع کی جائیں تو ایک کتاب مکمل ہو سکتی ہے۔ اب ایک اور اداکارہ نے بھی ان کے خلاف کتاب لکھنے کا ارادہ ظاہرکیا ہے جبکہ پہلے ہی کئی کتابیں ان کے خلاف شائع ہو چکی ہیں، یہ ان ماڈلز اور اداکاراﺅں کی صف میں شامل ہیں جنہیں صدر بننے سے قبل ٹرمپ صاحب کی طرف سے ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب وہ ان کے وکیل کی طرف سے پیسے ملنے کے باوجود انہیں بے نقاب کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ امریکی معاشرے میں ابھی تک کتب بینی کا شعور اور شوق موجود ہے۔ لگتا ہے یہ گرما گرم انکشافات پر مبنی کتاب ہاتھوں ہاتھ بکے گی۔ پہلے کتابوں کا بھی مارکیٹ میں کسی سے پوچھ لیں رپورٹ اچھی ملے گی....
٭....٭....٭....٭
کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ پر والدین کیخلاف کارروائی ہو گی
بڑوں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ چور کو نہ مارو پہلے اس کی ماں کو مارو.... بات یہ سو فیصد درست ہے۔ جو 18 سال سے کم عمر بچے سڑکوں پر اندھا دھند موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کو ایف 16 سمجھ کر چلا رہے بلکہ اڑا رہے ہوتے ہیں کیا وہ گھر والوں سے چھپ کر یہ گاڑی یا موٹرسائیکل سے لے کر سڑکوں پر نکلے ہوتے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا والدین اتنے بھی بھولے۔ نہیں ہوتے وہ از خود یہ جانتے ہوئے بھی کہ بچے ابھی کم عمر ہیں۔ انہیں خودگاڑی یا موٹر سائیکل لے کر دیتے ہیںاور پھر چلانے کی اجازت بھی دیتے ہیں۔ اب عدالت نے درست فیصلہ کیا ہے کہ کم عمر ڈرائیوروں کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی پر ان والدین کیخلاف کارروائی ہو گی جو اپنے ممولوں کو شاہین بننے کی غلط تربیت دے رہے ہیں۔ امرا کے بچے جب گاڑیوں اور ہیوی موٹرسائیکلوں پر سکول کالج جاتے ہیں تو غریبوں کے بچوں میں بھی ان کو دیکھ دیکھ کر موٹرسائیکل چلانے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ یوں یہ کم عمر اناڑی ڈرائیور اپنے ساتھ دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ خاص طور پر چنگ چی نامی بیماری نے تو ات مچا رکھی ہے ہر گلی کوچے میں یہ خودکش بمبار قانون کی دھجیاں بکھیرتے پھرتے ہیں۔ اب ان کو نکیل ڈالی جائے گی تو عوام کو بھی سکون ہو گا۔ ورنہ آئے روز کہیں کوئی خاتون کہیں کوئی بابا یا کوئی منا ان کی زد میں آ کر ہسپتال پہنچا ہوتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
عدالت میں 70 سالہ بڑھیا نے
80 سالہ شوہر کی پٹائی کردی
شاید اماں بے چاری کو معلوم نہیں ہو گا کہ اب قانون خود ہاتھ میں لینے کی بجائے جس میں جوابی کارروائی کا خطرہ بھی زیادہ ہے۔ اگر وہ خواتین کی داد رسی کے لئے بنائے قوانین، تھانوں اور عدالت کا رخ کرتیں تو زیادہ فائدہ ہو تا۔ جوان میاں بیوی لڑیں تماشہ تو لگتا ہے مگر جو ٹھٹھول اور لکی ایرانی سرکس بوڑھے مرد و زن کی جنگ کے موقعہ پر سامنے آتا ہے وہ اس تماشے سے کہیں زیادہ متاثر کن ہوتا ہے۔ اب یہ بے بے کی طرف سے بابا کی جوتوں سے پٹائی کا معاملہ بھی کچھ زیادہ آسان نہیں۔ یہ جدید دور کی لیلٰی مجنوں کی کہانی ہے۔ ورنہ 70 سالہ اماں اور 80 سالہ بابا لڑتے کب ہیں وہ تو ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر یا تو خوش ہوتے ہیں یا پھر کڑھتے ہیں۔ اس 70 سالہ خاتون کا دعویٰ ہے کہ اس 80 سالہ شخص نے اسے سبز باغ دکھا کر شادی کی اور پھر بعد میں نکاح نامہ پھاڑ دیا اور اس کے مکان پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ پہلے تو حیرت اس بات پر ہے کہ 70 سال کی عمر میں بھی کیا کوئی سبز باغ دیکھ کر بے وقوف بن سکتا ہے۔ اس عمر میں تو سامنے باغ کا سبزہ بھی ہرا نظر نہیں آتا۔ شادی سے قبل دونوں طرف آگ برابر لگی ہوگی جبھی تو نوبت شادی بیاہ تک آن پہنچی ہے۔ اب معاملہ عدالت میں ہے۔ اگر خاتون سچی ہیں تو عدالت ایسے چالاک بابے کو ضرور سزا دے گی جو اس مائی کو دھوکہ دے کر منکوحہ بنا کر اس کا گھر ہڑپ کرنا چاہتا ہے اس 80 سالہ بابا کے دماغ میں یہ نادر قبضہ گروپوں والا خیال آیا کہاں سے ۔ورنہ اس عمر میں تو لوگ اپنے گھر کا دروازہ تک بھول جاتے ہیں ....
٭....٭....٭....٭
ناقص کارکردگی دکھانے والے کالجز
کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
انٹر میڈیٹ کے نتائج آ چکے۔ کہیں دیوالی کا منظر ہے تو کہیں دیوالیہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایسا صرف طالب علموں کے ہاں نہیں ہو رہا۔ سرکاری کالجز کے کرتا دھرتا بھی پریشان پھر رہے ہیں۔ حکومت نے ایسے سرکاری کالجوں کے خلاف حقیقت میں کارروائی کا فیصلہ کیا ہے جن کا رزلٹ خراب رہا۔ اس وقت نجی کالجز کے ہاتھوں سرکاری کالجز تقریباً تعلیم کے میدان سے آﺅٹ ہو رہے ہیں تو ایسا ایکشن لینا ضروری ہو گیا ہے۔
غریب والدین نجی کالجز میں تو پڑھا نہیں سکتے جو لوٹ مار اور کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ لے دے کر ذہین غریب طالب علم انہی سرکاری کالجز میں داخلہ لیتے ہیں جہاں فیس کم ہے مگر یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ اساتذہ میں سیاست رچ بس گئی ہے۔ اساتذہ تنظیمیں کام چور کالج کے اوقات میں بھی دفتر سے غائب رہنے والوں تعلیم سے زیادہ فراغت میں دلچسپی رکھنے والوں کی پشت پناہی کرتی ہیں۔ پرنسپل یا محکمہ تعلیم تک ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ کئی مقامات پر تو وہ خود بھی اس سیاست میں ملوث ہوتے ہیں۔ طلبہ میں تعلیم کی بجائے غنڈہ گردی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ پڑھنے والے طلبہ اپنی محنت اور دیانتدار اساتذہ کی بدولت پھربھی نمایاں نمبر حاصل کر لیتے ہیں۔ تویہ ان کی ہمت ہے جب تک سرکاری کالجوں میں نجی کالجوں کی طرح سیاست بند، ڈسپلن سخت نہیں ہوتا۔ کامیابی نہیں ہو سکتی اس لئے اب حکومت کو بزوران بگڑے اساتذہ اور طلبہ کو راہ راست پر لانا ہو گا۔
٭....٭....٭....٭