انسانی روئیے نجابت شرافت کے آئینہ دار ہوتے ہیں، شخصی عظمت و شکوہ کا بانکپن قول و فعل کی گل رنگ شاخوں پر پھوٹتا ہے کوئی خوشامد سے تعبیر کرے تو وہ آزاد ہے اپنے ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر میری رائے ہے بیگم کلثوم نواز نجابت میں گندھی شخصیت ہیں بعض لمحے بہت یادگار ہوتے ہیں جن میں جنم لینے والا کوئی واقعہ کسی شخصیت کی بلندی کردار یا پھکڑپن کی دلیل بن جاتا ہے۔ ”میں چمن میںکیا گیا گویا دبستان کھل گیا“ کے مصداق چار ماہ بعد پہلے کالم کی اشاعت جہاں دوستوں کی جانب سے خیرسگالی کے جذبات کے لفظی گلدستے ملے وہاں گویا جوابدہی کا کٹہرا بھی کھل گیا ہے۔ ملک اور زیادہ تر ملک سے باہر دوستوں سے سوال کی صورت گرفت کی غالباً پانچ چھ ماہ ہوتے ہیں ایک کالم ”مریم نواز (ن) لیگ کیلئے ترپ کا پتہ“ کے عنوان سے لکھا تھا دوستوں نے اسے میرے اندازے کی غلطی قرار دیا۔ ان کا اصرار ہے ترپ کا پتہ دراصل بیگم کلثوم نواز ہیں اس لئے انہیں انتخابی اکھاڑے میں اتارا گیا ہے۔ مجھے اتفاق ہے بیگم کلثوم نواز بلاشبہ بہترین امیدوار ہیں لیکن مجھے بہرحال آنے والے وقت میں مریم کا سیاسی کردار بہت اہم نظر آ رہا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں پانامہ کیس کا فیصلہ مریم کی سیاست کی راہیں کشادہ یا مسدود کرے گا البتہ مجھے بیگم کلثوم نواز کی سیاسی جدوجہد ثانی کا منظر نظر آ رہا ہے یہ میری کورچشمی بھی ہو سکتی ہے۔ان کی سیاسی جدوجہد کے دور اول کا بانکپن عروج پر تھا مال روڈ کے نزدیک ان کی گاڑی کا راستہ روک کر جی او آر ون کے گوشے میں کرین کے ذریعے پہنچا دیا گیا۔ اطلاع ملی دوسرے صحافیوں کے ساتھ میں بھی بھاگم بھاگ وہاں پہنچا، ڈرائیونگ سیٹ پر فیصل آباد کے صفدر رحمن پچھلی نشست پر بیگم تہمینہ دولتانہ، مخدوم جاوید ہاشمی اور جاتی امراءکا ایک ملازم تھا۔ بیگم صاحبہ کو گاڑی سے نکالنے میں ناکامی پر سائلنسر میں کاغذ پھنسا کر انجن بند کر دیا گیا اور گاڑی کا اے سی بھی بند ہو گیا لیکن سخت گرمی میں گاڑی کی گھٹن میں دس گھنٹے خود کو محبوس رکھ کر انہوں نے وقت کی قوتوں کو پیغام دے دیا کہ ان کے آہنی عزم کو شکست نہیں دی جا سکتی انہوں نے باور کرا دیا کہ ناقابل تسخیر گاما پہلوان کی نواسی کو سیاسی اکھاڑے میں ہزیمت سے دوچار نہیں کرایا جا سکتا اور ان کی جرات و بہادری کا کرشمہ ہی تھا کہ مردوں کے ساتھ خواتین کارکن بھی دلیرانہ کردار کی نئی داستانیں رقم کر رہی تھیں۔ یہ مجنونانہ جرا¿ت ہی تھی کہ خود کو آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا آسان ہدف بنانے کیلئے اپنے ہاتھوں کو اسمبلی ہال کی ریلنگ سے زنجیروں میں جکڑ کر تالے ڈال دیئے تھے۔ پولیس والوں نے اینٹیں اور ہتھوڑے مار مار کر جنہیں توڑا سلمیٰ بٹ اور ان کی ساتھی خواتین گھروں سے بچوں سے بے نیاز ہو چکی تھیں۔ انکے ذہنوں میں ایک ہی سودا سمایا تھا بیگم کلثوم کی جدوجہد کو کامیاب بنا کر میاں نواز شریف کو قید و بند کی صعوبتوں سے آزاد کرانا ہے۔ شاید یہی پس منظر تھا کہ ایک روز میں نے بیگم کلثوم نواز سے کہا کہ اگر آپ کو بھی گرفتار کر لیا گیا تو یہ تحریک کون چلائے گا۔ ”انہوں نے جواب دیا ”میں سارے امکانات ذہن میں رکھ کرگھر سے نکلی ہوں میری گرفتاری پر کارکن زیادہ شدت سے تحریک چلائیں گے“
اپنی جدوجہد کے دوران بیگم کلثوم نواز ہر جلسے ہر پریس کانفرنس اور ہر ملاقاتی سے یہ بات ضرور کرتیں ”میاں صاحب کی رہائی کے بعد میں واپس کچن میں چلی جاﺅںگی“ مجھے خیال آیا کچھ یا زیادہ لوگ اس بات سے مایوس ہو کر کہ ان کے کچن میں چلے جانے کے بعد ہماری خدمات کو کون سراہے گا، پیچھے نہ ہٹ جائیں ایک روز جب بیگم تہمینہ دولتانہ، بیگم نجمہ حمید اور بیگم عشرت اشرف موجود تھیں میں نے ان سے اپنے اس خدشے کا اظہار کیا اس جواب میں انہوں نے کہا ”بخاری بھائی، میں نہ کسی کو غلط فہمی کا شکار کرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی کسی کو خوش فہمی میں مبتلا رکھنا چاہتی ہوں اگر کوئی صرف میاں صاحب کیلئے میرا ساتھ دے رہا ہے تو ٹھیک اگر کوئی مفاد پیش نظر ہے تو وہ اپنا وقت ضائع نہ کرے ابھی سے الگ ہو جائے کوئی ایک بھی ساتھ نہ رہا تو بھی میں تنہا یہ جدوجہد جاری رکھوں گی“ اس جواب سے میری نظروں میں ان کے بلند شخصی کردار کی تصویر سامنے آ گئی کہ ایسے حالات میں جب ریاستی قوت سے ٹکرانے کیلئے انہیں زیادہ سے زیادہ افرادی قوت کی ضرورت ہے وہ سچائی کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں یقیناً یہ نجابت میں گندھی شخصیت میرے روبرو تھی جب وہ اپنے سسر میاں محمد شریف اور ساس محترمہ خورشید بیگم کی دعاﺅں کی چھاﺅں میں گھر کی دہلیز سے باہر آئیں تو بیٹوں سے بڑھ کر ساتھ دینے والا داماد کیپٹن صفدر ہی ساتھ تھا تاہم بیگم کلثوم نواز سے گفتگو کے دوران موجود مریم نے میری بات اور اپنی والدہ محترمہ کا جواب سن کر کہا ”میں ان سب سے نام اور خدمات ایک رجسٹر میں نوٹ کر رہی ہوں اللہ تعالی نے موقع دیا تو ان کی خدمات کو ضرور سراہا جائے گا اور پھر وقت نے گواہی دی کہ جب 2013ءمیں موقع ملا تو یہ کارکن اسمبلی کی رکنیت سمیت دیگر انداز سے یقیناً نوازے گئے۔
ادھر بیگم کلثوم نواز کی جانب سے کچن میں واپس جانے کی ”تکرار“ صحافتی حلقوں میں دلچسپ بحث کا موضوع بن گئی ایک رائے تھی سیاست ایسی جادو نگری ہے جس میں جانے کے سو راستے ہیں مگر واپسی کا ایک راستہ بھی نہیں ہے۔ دوسری رائے ایک مرتبہ سیاست کا چسکا لگ جائے تو پھر چھٹکارہ مشکل ہے۔ تیسری رائے یہ اعلان بجائے خود سیاست ہے پھر اس حوالے سے بیگم نصرت بھٹو، بیگم نسیم ولی خان اور دیگر خواتین رہنماﺅں کی مثالیں دی جاتیں لیکن بیگم کلثوم نواز نے ان تمام اندازوں، جائزوں اور تخمینوں کو حرف غلط ثابت کر دیا۔ میاں صاحب کی رہائی کے بعد وہ واقعی کچن میں چلی گئیں اور ایسی گیئں جیسے کبھی کچن سے باہر ہی نہیں آئی تھیں حتیٰ کہ 2013ءمیں خاتون اول کا منصب پانے کے باوجود وہ سیاسی تو کیا سماجی تقاریب میں بھی شاذ ہی نظر آئیں۔ وزیراعظم شوہر کے ہمراہ ملک میں سرکاری تقاریب میں بھی کم کم‘ ہاں وہ غیر ملکی دوروں میں ضرور میاں نواز شریف کے ہمرکاب رہیں ایک گھریلو خاتون کی طرح کچن ہی ان کے لئے ذہنی آسودگی کا مقام رہا ہے اور اب میرا خیال ہے میاں نواز شریف کے لئے ہی ان کی جدوجہد کا دورثانی ملک کی سیاسی تاریخ کا نیا باب بننے والا ہے۔ انہوں نے اپنے عمل سے خود کو ایک سچی خاتون ثابت کیا ہے اس لئے ان کی جانب سے یا مریم نواز کی معرفت این اے 120 کے لوگوں سے جو وعدے کئے جائیں گے وہ ضرور پورے ہوں گے این اے 120 کے لوگوں کو اس کا یقین رکھنا چاہئے مجھے تو یقین ہے تاہم وہ 17 ستمبر کو کامیابی کی مالا کس کے گلے کی زینت بنائیں گے یہ بہرحال ان ہی کا اختیار ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024