سلام ان پر کہ جنہوں نے سیلاب زدگان کے درمیان عید گزاری اور ان آفت زدہ لوگوں کے بچوں میں تحفے تحائف تقسیم کئے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھا گیا اور چند لمحے خوشگوار ہو گئے۔ تیمار داری و دل جوئی سے ہی بیمار کو قرار آتا ہے۔ پروین نے خوب کہا تھا:
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا..... روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
اگرچہ حکومت نے بھی بچوں میں تحائف تقسیم کئے لیکن مجموعی طور پر سیلاب زدگان کیلئے ان کے وعدے محبوب کے وعدوں کی طرح ہیں جو ایفا کرنے کیلئے نہیں ہوتے۔ وزیراعظم نے کس خوبصورتی سے بیان دیا ہے کہ فوج اور این ڈی ایم حکومت کے ہی ادارے ہیں۔ اگر یوں ہے تو پھر قومی کمیشن جیسے صالح عمل سے اجتناب کیوں کیا گیا‘ اس میں تو پوری قوم کا اعتماد شامل تھا۔ بہرحال فوج نے تو لاہور‘ راولپنڈی اور کچھ اور شہروں میں ریلیف کیمپس بھی قائم کر لئے ہیں شاید یہ بڑھتا ہوا کارخیر حکومتی طبقوں کیلئے تشویش کا باعث ہو۔ جماعت دعوہ‘ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اور دوسری تنظیموں کے کارکنوں کیلئے دل سے دعائیں نکلتی تھیں کہ وہ سڑکوں پر چندہ کے ڈبے لئے اشاروں پر ایک ایک گاڑی کے پاس آتے تھے۔ قوم کو ان پر خلوص لوگوں پر فخر ہے یقیناً ان کا اجر اللہ کے پاس ہے۔
عید کے موقع پر امریکہ نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ونہ دتہ خیل پر ڈرون حملے کرکے بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلا دیا‘ اسرائیل نے فلسطینیوں پر تشدد جاری رکھا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جلوس پر فائرنگ کی‘ چار دن کیلئے کرفیو لگایا اور میر واعظ کو نظربند کر دیا گیا۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہئے کہ ہمارے دشمن کس قدر سفاک اور بے رحم ہیں۔ ہمیں اپنی رواداریوں پر سوچنا ہو گا۔ فی الحال ہمیں اپنی مشکلات سے نکلنا ہے۔ عید کے ساتھ ہی سکولوں اور کالجوں کی تعطیلات۔ موسم گرما بھی ختم ہوا چاہتی ہیں۔ انشاء اللہ ہمارے اساتذہ اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے طلبا کو ساتھ ملا کر سیلاب زدگان کیلئے بحالی کی تحریک بن جائیں گے۔ میرے یقین کا باعث قاضی گرائمر سکول کے سربراہ قاضی نعیم انجم ہیں کہ انہوں نے اپنے سکول کی طرف سے سات لاکھ روپے کی امداد بھیجی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ قاضی نعیم انجم نے اس حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں ن لیگ کے رہنما نصیر احمد بھٹہ اور رمضان بھٹی شریک ہوئے۔ دوسرے مہمانوں میں تاجر رہنما خالد پرویز‘ ماہر تعلیم عاصم فاروقی سمیت کئی اہم شخصیات شامل تھیں۔ خالد پرویز نے شہباز شریف کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے پچاس ہزار سیلاب زدہ بچوں کیلئے ایک کتاب‘ پنسل‘ ربر اور شارپنر پر مشتمل تحفہ روانہ کیا۔
اس حوالے سے ایک تقریب معروف صحافی اور سماجی کارکن مدثر بٹ کی جانب سے منعقد کی گئی تھی۔ آمنہ الفت ہسپتال اور سیلاب زدگان کیلئے رو رو کر چندہ مانگ رہی تھیں۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی‘ ڈاکٹر سعید الٰہی‘ حسین شاد‘ منہاس صاحب اور کتنے ہی معروف لوگ یہاں جمع تھے۔ دونوں تقاریب میں مجھے بھی اپنا کلام سناتا تھا: صرف ایک شعر (شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات)
جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو..... پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا..... روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
اگرچہ حکومت نے بھی بچوں میں تحائف تقسیم کئے لیکن مجموعی طور پر سیلاب زدگان کیلئے ان کے وعدے محبوب کے وعدوں کی طرح ہیں جو ایفا کرنے کیلئے نہیں ہوتے۔ وزیراعظم نے کس خوبصورتی سے بیان دیا ہے کہ فوج اور این ڈی ایم حکومت کے ہی ادارے ہیں۔ اگر یوں ہے تو پھر قومی کمیشن جیسے صالح عمل سے اجتناب کیوں کیا گیا‘ اس میں تو پوری قوم کا اعتماد شامل تھا۔ بہرحال فوج نے تو لاہور‘ راولپنڈی اور کچھ اور شہروں میں ریلیف کیمپس بھی قائم کر لئے ہیں شاید یہ بڑھتا ہوا کارخیر حکومتی طبقوں کیلئے تشویش کا باعث ہو۔ جماعت دعوہ‘ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اور دوسری تنظیموں کے کارکنوں کیلئے دل سے دعائیں نکلتی تھیں کہ وہ سڑکوں پر چندہ کے ڈبے لئے اشاروں پر ایک ایک گاڑی کے پاس آتے تھے۔ قوم کو ان پر خلوص لوگوں پر فخر ہے یقیناً ان کا اجر اللہ کے پاس ہے۔
عید کے موقع پر امریکہ نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ ونہ دتہ خیل پر ڈرون حملے کرکے بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلا دیا‘ اسرائیل نے فلسطینیوں پر تشدد جاری رکھا۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جلوس پر فائرنگ کی‘ چار دن کیلئے کرفیو لگایا اور میر واعظ کو نظربند کر دیا گیا۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو جانا چاہئے کہ ہمارے دشمن کس قدر سفاک اور بے رحم ہیں۔ ہمیں اپنی رواداریوں پر سوچنا ہو گا۔ فی الحال ہمیں اپنی مشکلات سے نکلنا ہے۔ عید کے ساتھ ہی سکولوں اور کالجوں کی تعطیلات۔ موسم گرما بھی ختم ہوا چاہتی ہیں۔ انشاء اللہ ہمارے اساتذہ اپنا قومی فریضہ ادا کرتے ہوئے طلبا کو ساتھ ملا کر سیلاب زدگان کیلئے بحالی کی تحریک بن جائیں گے۔ میرے یقین کا باعث قاضی گرائمر سکول کے سربراہ قاضی نعیم انجم ہیں کہ انہوں نے اپنے سکول کی طرف سے سات لاکھ روپے کی امداد بھیجی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ قاضی نعیم انجم نے اس حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا جس میں ن لیگ کے رہنما نصیر احمد بھٹہ اور رمضان بھٹی شریک ہوئے۔ دوسرے مہمانوں میں تاجر رہنما خالد پرویز‘ ماہر تعلیم عاصم فاروقی سمیت کئی اہم شخصیات شامل تھیں۔ خالد پرویز نے شہباز شریف کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے پچاس ہزار سیلاب زدہ بچوں کیلئے ایک کتاب‘ پنسل‘ ربر اور شارپنر پر مشتمل تحفہ روانہ کیا۔
اس حوالے سے ایک تقریب معروف صحافی اور سماجی کارکن مدثر بٹ کی جانب سے منعقد کی گئی تھی۔ آمنہ الفت ہسپتال اور سیلاب زدگان کیلئے رو رو کر چندہ مانگ رہی تھیں۔ ڈاکٹر محمد اجمل نیازی‘ ڈاکٹر سعید الٰہی‘ حسین شاد‘ منہاس صاحب اور کتنے ہی معروف لوگ یہاں جمع تھے۔ دونوں تقاریب میں مجھے بھی اپنا کلام سناتا تھا: صرف ایک شعر (شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات)
جن کی آنکھوں میں ہوں آنسو انہیں زندہ سمجھو..... پانی مرتا ہے تو دریا بھی اتر جاتے ہیں