لمحۂ فکریہ
کورونا نے پچھلے ڈیڑھ سال میں جہاں دنیا بھر کے حالات کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ وہیں معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات کا بھی بہت اضافہ ہو گیا ہے ۔ اس وبا کے زیر اثر انسانی صحت تو مسائل کا شکار ہوئی اور لاکھوں قیمتی جانوں کا بھی ضیاع ہوا دوسری طرف انسان تنہائی کا شکار ہو گیا ۔ جتنا آج کے دور میں دنیا بھر کے لوگوں کو مایوس کن حالات کا سامنا ہے شاید ہی اس سے پہلے تھا ۔ پا کستان جیسے تیسری دنیا کے لوگ جن کی آبادی کا بڑا حصہ پہلے ہی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے اس طبقے کے لوگوںکی حالت سب سے زیادہ سنگین صورتحال سے دوچار ہوئی ہے جس میں ایک بہت بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی بے روز گاری کا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے حالیہ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ ملک میں اس وقت 24 فی صد افراد بے روزگار ہیں۔ جن میں سے چالیس فی صد خواتین بھی بہتر روزگار کے حصول میں ناکام ہیں ۔رواں برس جون میں جاری ہونے والے اقتصادی سروے برائے سال 2020-21 کے مطابق ملک میں کورونا وائرس کے باعث لگائے گئے لاک ڈائونز نے روزگار کی صورتحال پہ شدید اثرات مرتب کئے اور تقریبا دو کروڑ سات لاکھ سے زائد افراد بے روز گار ہوئے ۔
پاکستان جو کہ دنیا کی نویں بڑی اٖفرادی قوت کے ساتھ پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور ہر سال اس کی افرادی قوت میں ایک بڑا اضافہ ہوتا ہے ، لیکن حال یہ ہے کہ پلاننگ اینڈ ڈویلیپمنٹ کمیٹی کے ایک اجلاس میں انکشاف ہوا کہ حال ہی میں ایک ہائی کورٹ کے چپڑاسی کی نوکری کے اشتہار کے جواب میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ افراد نے درخواستیں دیں اس ملازمت کے لئے دراخواستیں دینے والوں میں ایم فل کی ڈگری حاصل کرنے والے افراد بھی شامل تھے ۔ پاکستان میں اس وقت بے روزگاری کامسئلہ بہت ہے اور اس کے منفی اثرات بہت بری طرح سے ہمارے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح ، خودکشی کی طرف نوجوانوں کا رجحان ، گھریلو جھگڑے ، طلاق کے کیسز میں اضافہ، فرسٹریشن ، ڈیپریشن اور اس طرح کے نفسیاتی مسائل ، بچوں کی شادیوں میں مشکلات ، بلا وجہ کی فراغت، ایسے بہت سے مسائل جن کی وجہ سے ہمارا معاشرہ ابتری کا شکار ہے، بے روزگاری کا ہی شاخسانہ ہیں ۔
ہمارا اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو تعلیم تو دے رہے ہیں لیکن ان کے ہاتھ میں کوئی ہنر نہیں دے رہے ۔ ہمارا آج کا نوجوان جو میٹرک بھی پاس کر لیتا ہے وہ بھی ایک اچھی نوکری کے خواب دیکھتا ہے لیکن حالات ایسے ہیں کہ ماسٹرز اور ایم فل کی ڈگریاں ہاتھوں میں لئے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نوکریوں کے حصول کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ ایک دفعہ کسی جگہ پڑھا تھا کہ ہمارے نظام تعلیم میں بس صرف دو خامیاں ہیں ایک نظام نہیں ہے اور دوسرا تعلیم نہیں ہے ۔ یہ نظام بچوں کے ہاتھوں میں کاغذ کی ڈگریاں تو پکڑا دیتا ہے لیکن ایک اچھے مستقبل کا ضامن نہیں بنتا ، یونیورسٹیز میں پڑھائے جانے والے ایسے مضامین جو آپ کو پڑھے لکھے ہونے کی سند تو دے دیتے ہیں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی صف میں بھی لاکھڑا کرتے ہیں لیکن عملی زندگی میں آپ کے کام نہیں آتے ۔ ایسے مضامین کی جگہ ہمیں طلباء کو ایسی تعلیم دینے کی اشد ضرورت ہے جو ان کے لئے حصول روزگار میں رکاوٹ نہ بن سکیں اور ڈگریوں کے ساتھ ساتھ اگر ہم بچوں کو ووکیشنل ٹرینگز دینے کا سلسلہ شروع کر دیں تو اس سے طلباء تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھ سکیں گے جو کہ عملی زندگی میں ان کے بہت کام آسکتا ہے ۔ جس کا حکومت کو بھی فائدہ ہے کہ نوجونواں کا سرکاری نوکریوں پہ انحصار کم ہو جائے گا اور اپنے ہنر اور تعلیم کے ذریعے وہ ایک باعزت روزگار بھی حاصل کر سکیں گے ۔ دوسری طرف پرائیوٹ سیکٹر میں بھی بہت زیادہ کام کرنے کی گنجائش موجود ہے اکیلے حکومت کے لئے یہ ناممکن ہے کہ ہر نوجوان کے لئے نوکری کا بندوست کر سکے اس کے لئے ضروری ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر کے ساتھ مل کے ایسے پراجیکٹس پہ کام کیا جائے جو کہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں اور نوجوانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری کا بھی حل ہو سکے ۔ پاکستان میں اوسط مزدور کو فی دن سات سو روپے اور پر گھنٹہ 87 روپیے ملتے ہیں جو کہ ماہانہ اکیس ہزار بنتے ہیں اور اگر بڑھتی ہوئی مہنگائی کا تناسب اوسط آمدن کے حساب سے کیا جائے تو ایک عام آدمی کے لئے گزارہ دن بدن مشکل ہو تاجا رہا ہے ۔ ایسے میں ایک بڑے کنبے کی کفالت کسی ایک شخص کے لئے مشکل ہے ، باعزت زندگی گزارانا ہر شہری کا بنیادی حق ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت کوئی ایسی مربوط پالیسی مرتب کرے جو ایک عام آدمی کے لئے روزگار کے حصول کو آسان بنا سکے ۔