ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت
ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936ء میں بھوپال میں اردو بولنے والے پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1952ء میں بھوپال سے میٹرک کیااور پھر ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ یہاں آکر پہلے ڈی جے سائنس کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور پھر کراچی یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد 1961ء میں سکالرشپ حاصل کرکے جرمنی چلے گئے۔ پندرہ برس یورپ میں اپنی سکونت کے دوران انہوں نے مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی ‘ ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ وہاں کام کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ہالینڈ میں اپنے قیام کے دوران مقامی خاتون ہنی سے شادی کی جن سے ان کی دو بیٹیاں ہیں۔
ان کی زندگی میں اس وقت فیصلہ کن موڑ آیا جب انہوں نے 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا یہ خطاب سنا کہ آج ہم نے دو قومی نظریئے کو بحرہ عرب میں غرق کردیا ہے تو ان کے خون نے جوش مارا اور انہوں نے ہر صورت اپنی صلاحیتوں سے وطن عزیز ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کو جدید ترین اسلحے سے لیس کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کردینے کا تہیہ کرلیا اور اس وقت بھارتی وزیراعظم کے خطاب سے ہونے والی افسردگی سے ملت اسلامیہ کو نکالنے کے لئے اپنے وطن کو اپنی خدمات پیش کرنے کا مکمل ارادہ کرلیا۔ 1974ء میں جب بھارت نے پہلا ایٹمی ٹیسٹ کیا اور پاکستان کے پاس جواب دینے کے لئے کچھ نہیں تھا تو انہوں نے فوری طورپر پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔ 1976ء میں بھٹو شہید نے یہ کہہ کر ایٹمی پروگرام کے آغاز کا اعلان کیا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگرایٹم بم ضرور بنائیں گے ۔ہم بھارت سے اسلحے کی دوڑ میں کسی صورت پیچھے نہیں رہیں گے۔
ڈکٹر عبدالقدیر خان نے 1976ء میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں اپنی خدمات کا آغاز کیا اور 8سال کے مختصر عرصے میں الحمدﷲ پاکستان دنیا کی پہلی
اسلامی ایٹمی قوت بن گیا جسے پوشیدہ رکھا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کے عوض جنرل ضیاء الحق نے 1981ء میں ایٹمی تحقیقاتی ادارے کا نام ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز رکھ دیا جو ان کی خدمات کے صلے میں ادنیٰ سا اعتراف تھا۔ 1998ء میں جب بھارت نے دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کئے تو عوامی دباؤ پر اس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کا فیصلہ کیا اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ٹیم نے اہم ترین قومی فریضہ انجام دیکر بھارت کو دوٹوک جواب دیا اور تین کے بدلے میں 5ایٹمی دھماکے کرکے دنیا پر واضح کردیا کہ الحمدﷲ پاکستان جدید ترین اسلحے کی دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ وہ ایسا وقت تھا جب پاکستانی وزیراعظم کو دنیا بھر کی جانب سے ایٹمی ٹیسٹ نہ کرنے کے عوض مختلف لالچ و مراعات کے وعدے کئے جارہے تھے اور ایٹمی دھماکے کرنے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں لیکن پاکستانی قوم نے ان تمام مراعات و دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر بھارت کوکامیاب دوٹوک جواب دیا۔ 28مئی 1998ء کا دن نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی دنیا کے لئے ایک تاریخی دن ہے جو مسلم دنیا نے صرف اور صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے باعث دیکھا۔
پاکستان کے پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن جانے کے بعد اسے ’’اسلامی بم‘‘ قرار یکر مختلف طریقوں سے دباؤ کا سلسلہ تاحال جاری ہے لیکن ایٹمی پروگرام کے بعد بھارت نے جدید ترین میزائل پروگرام کا آغاز کیا جس میں پاکستان الحمدﷲ بھارت سے آگے ہے اور اس وقت کم از کم آدھی دنیا پاکستانی میزائلوں کی زد میں آسکتی ہے اور یہ تمام کامیابیاں بھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی شخصیت کی مرہون منت ہیں۔ اس وقت خطے میں پاکستان جدید ترین اسلحے کی دوڑ میں بھارت سے آگے ہے اور بھارت کو ہمیشہ منہ توڑ جواب ملا ہے اور پاکستانی قوم کا بچہ بچہ جو بھارتیوں کی آنکھوں سے آنکھیں ملاکر بات کرنے کے قابل ہواہے وہ صرف اور صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے باعث ممکن ہوسکا ہے۔
مسلم دنیا کے عصر حاضر کے عظیم ترین سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان 10اکتوبر 2021ء کو دار فانی سے کوچ کرگئے۔ اﷲ پاک نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستان کے لئے نعمت بنایا‘ اب اﷲ پاک ان کی قبر مبارک پر اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرمائے اور مسلم دنیا پر احسان عظیم کے عوض ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے۔ (آمین)
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تدفین سرکاری پروٹوکو ل سے کی گئی اور قومی پرچم سرنگوں رکھا گیا لیکن ان کی رحلت کے ساتھ ہی وزیراعلیٰ سندھ کے نام ان کا ایک خط میڈیا کی زینت بنا جس سے موجودہ حکمرانوں کے محسن ملت کیساتھ رویئے کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شدید علالت کے دوران سوائے وزیراعلیٰ سندھ کے کسی سرکاری عہدیدار نے ان کی مزاج پرسی کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایٹمی مواد کی دوسرے ممالک کو فراہمی کا الزام اپنے سر لیکر نظربندی کی طویل زندگی قبول کی لیکن حقیقت میں قائداعظم محمد علی جناح کے بعد ان سے بڑی شخصیت پاکستان کو نہیں ملی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت کے بعد بھارتی وزیراعظم مودی کی ایک تصویر دیکھی کہ وہ اپنے ملک کے ایٹمی پروگرام کے خالق کی قبر پر ہاتھ جوڑ کر انتہائی احترام سے حاضری دے رہے ہیں لیکن یہاں کے حکمرانوں کے پاس ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے جنازے میں شرکت کے لئے وقت نہیں تھا یاشاید جان بوجھ کر اپنے زمینی خداؤں کو خوش کرنے کے لئے ایسا کیا گیا۔
کراچی سے لیکر خیبر اور کشمیر سے لیکر فلسطین اور شام و عراق سمیت دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت کو ملت اسلامیہ کا نقصان قرار دیکر اﷲ پاک سے اپنے حضور ﷺ کے وسیلے سے مغفرت و بلندی درجات کی دعائیں کیں اور پاکستان میں بھر میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہا۔ حکمرانوں کا رویہ زیر بحث ہے کہ ان کے قول و فعل کے تضادات اس اہم ترین موقع پر کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ حکمراں غلامی کی زنجیریں توڑنے کی باتیں کرتے نہیں تھکتے لیکن محسن ملت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عیادت و نماز جنازہ کے لئے ان کے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ ہی ان کی اس میں دلچسپی نظر آتی ہے بلکہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رحلت پر روایتی بیان جاری کرکے یہ سمجھ لیا کہ ان کی ذمہ داری پوری ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان کی قسمت میں تھے کہ یہ نعمت خداوندی ہمیں حاصل ہوئی اور ہم دنیا میں سربلند ہوئے۔ ان کی رحلت ملت اسلامیہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے ۔