پیر ‘ 14؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 14 ؍ اکتوبر 2019 ء
مجھے کٹھ پتلی حکومت کو گھر بھیجنا ہے: بلاول
یہ اچانک بیٹھے بٹھائے بلاول نے کون سا روگ پال لیا۔ فی الحال حکومت کو گرانے کی بجائے ان کی ساری توجہ پاپا اور پھوپھو کو جیل سے نکالنے پر ہونے چاہیئے۔ مخالفین تو چاہتے یہی ہیں کہ ساری پیپلز پارٹی حکومت گرانے پر لگی رہی اور حکومت آسانی سے پارٹی کے رہنمائوں کو ایک کے بعد ایک شکار کرتی رہے۔ اس وقت منی لانڈرنگ ، کرپشن، بیرون ملک بے نامی اثاثے اور اکائونٹس کے کیس بن رہے ہیں۔ انہی کے سبب بے شمار لوگ کیا پیپلز پارٹی کیا مسلم لیگ (ن) جیل کے اندر ہیں۔ مگر کیا مجال ہے جو کوئی ایک پھوٹی کوڑی بھی دینے کو تیار ہو۔ یہاں تو وہی ’’چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے‘‘ قسم والے لوگوں سے پالا پڑا لگتا ہے۔ اس وقت یہ صرف بلاول جی کی نہیں مولانا فضل الرحمن، نواز شریف ،اسفند یار ولی ، محمود خان اچکزئی، سراج الحق سمیت تمام اپوزیشن کی خواہش ہے کہ حکومت گرا دیں۔ مگر وہ شاید بھول رہے ہیں کہ حکومت جن بیساکھیوں کہہ لیں یا ستونوں کے سہارے کھڑی ہے جب تک وہ موجود ہیں سرکنے نہیں اس وقت تک حکومت کے جانے کی کوئی امید نہیں۔ اس لیے بلاول جی ایسی باتیں نہ کریں جن کو سن کر ہاسا نکلتا ہو۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی اس معصومانہ خواہش پر حکومت خود ہی
وہ کتنی دور سے پتھر اٹھا کے لایا تھا
میں سر کو پیش نہ کرتا تو اور کیا کرتا
کہتے ہوئے گھر چلی جائے گی تو ایسا کچھ نہیں ہونا۔
٭٭٭٭٭٭
مودی کی واک ساحل سمندر سے کچرا اٹھایا
غالباً چینی صدر نے مودی سے کہا ہو گا کہ یہ کیا ہے دنیا میں تفریحی مقامات پر معیاری صفائی ہوتی ہے مگر بھارت کے تفریحی مقامات خاص طور پر ساحل پر یہ کیا گندگی اور فضلہ بکھرا ہوتا ہے۔ یہاں تو سانس لینا دوبھر ہو جاتا تھا اور پھر چین کے صدر کے دورے کے بعد مودی کو ہوش آیا اور وہ بھاگم بھاگ ماملا پورم کے ساحل سے خود کچرا اٹھانے پہنچ گئے۔ یہ ڈرامہ بازی وہ عوام کو مطمئن اور خوش کرنے کے لیے کرنے کے ماہر ہیں۔ لگتا ہے اب ان کے چائے کی دھوم چائے بنا کر پلانے کی اداکاری فلاپ ہو گئی ہے۔ اس لیے اب وہ کچرا اٹھا کر اپنا امیج بہتر بنا رہے ہیں۔ ڈرامہ بھی دیکھیں ایک شاپر میں کاغذ بھر رہے ہیں۔ حالانکہ بھارت کے دریائوں کے کنارے اور ساحلی علاقوں میں سمندر کنارے غلاظت کے اتنے ڈھیر لگے ہوئے ہیں کہ لوگوں کے لیے واک کرنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ غریب بھارتی صبح سویرے دریا کنارے اور ساحل پر جا کر فراغت حاصل کرتے ہیں اور اس سمندر یا دریا کے پانی کو آلودہ کرتے ہیں۔ مودی نے تو جہاں واک کی صبح کی وہاں تو پہلے ہی ساحل صاف کیا گیا ہو گا۔ ورنہ ایسی جگہوں کی واک صحت بنانے کی بجائے تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ ہے مہان بھارت کا وہ داغدار چہرہ جہاں آج بھی 60 کروڑ سے زیادہ لوگ بیت الخلا کے بغیر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ باقی مشترکہ پبلک ٹوائلٹ استعمال کرتے ہیں وہ بھی لائن میں لگ کر صرف پوش علاقوں کے چند فیصد لوگ اپنا غسلخانہ رکھتے ہیں۔ شاید یہ اسی گندگی کا اثر ہے کہ مودی جی ہر جگہ سیاسی گند پھیلاتے پھرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
حج پر جانے سے قبل محمود قریشی سے صلح ہوئی: جہانگیر ترین
لو بھلا اب یہ راز فاش کرنے کی کیا ضرورت تھی جب صلح ہو چکی۔ مزہ تو تب تھا جب واقفان احوال شد و مد سے کہتے پھرتے تھے کہ ترین جی اور شاہ جی میں کھٹ پٹ ہے۔ مگر اس کے جواب میں پوری توانائی سے اعلان ہوتا کہ نہیں سب جھوٹا ہے۔ ایسا کچھ نہیں
یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہو گی
کچھ لوگوں کو اعتبار آ جاتا اور کچھ تذبذب کا شکار رہتے۔ یوں معاملہ ففٹی ففٹی کا رہتا۔ ویسے بھی سیاست اسی کا نام ہے۔ دکھائو۔ سجی تو مارو کھبی۔ اب حج کے بعد وہ بھی کافی عرصہ بعد اچانک ترین جی کو یہ کیا سوجھی کہ وہ دونوں کے دل صاف ہونے کی خبر دے رہے ہیں۔ یہاں تو کوئی کسی کی ذاتی گارنٹی نہیں دیتا یہ تو دل کا معاملہ ہے۔ اگر واقعی دونوں طرف سے دل صاف ہوئے ہیں تو مبارک ہو۔ اب دونوں حریف حلیف بن کر ایک دوسرے کی بجائے مخالفوں سے برسرپیکار ہوں گے۔ یہ خبر خان صاحب کے لیے اطمینان کا باعث ہو گی یا نہیں معلوم نہیں کیونکہ اوپر والے ہمیشہ نیچے والوں کو ٹکرا کر ہی خوش ہوتے ہیں اس طرح لڑنے والوں کی توجہ اوپر نہیں جاتی۔ اگر یہ ایک ہو جائیں تو پھر خطرہ رہتا ہے کہ اب کہیں یہ مل کر اوپر کوئی مسئلہ نہ پیدا کر دیں۔ اسی لیے ہماری تمام سیاسی جماعتوں میں پدرم سلطان بود کا عمل جاری ہے۔ نیچے سے دو نمبر کی قیادت کا فقدان ہے۔ سارا کھیل نمبر ون ہی کھیلتا ہے۔ یا اس کے منظورِ نظر۔
٭٭٭٭٭٭
بھوٹان میں مچھر مارنا گناہ، ملیریا اور ڈینگی
کا مقابلہ حفاظتی اقدامات تک محدود
یہ عجب الٹ پھیر ہے۔ مچھر بندے مارے خواہ ملیریا سے یا ڈینگی اسے کھلی چھوٹ ہے۔ اس پر کوئی پابندی نہیں۔ انسان پر پابندی ہے کہ وہ اس موذی مچھر کو نہیں مار سکتا۔ کیونکہ بودھ عقائد میں کسی جاندار کو مارنا گناہ ہے۔ ویسے بودھ مت کا تو ایسا کوئی حکم نظر سے نہیں گزرا ۔ جین مت کے حوالے سے البتہ سب جانتے ہیں کہ وہ منہ پر سانس لیتے ہوئے بھی کپڑا باندھے رکھتے ہیں کہ کوئی جراثیم تک منہ میں نہ جائے کہ وہ جاندار ہوتا ہے۔ حالانکہ وہ بھی چلتے ہوئے نجانے کتنے نظر نہ آنے والے جانداروں کو قدموں تلے کچلتے ہوں گے۔ خیر یہ موضوع علیحدہ ہے۔ بھوٹان میں حکومت کو ملیریا اور ڈینگی کیخلاف دو محاذوں پر جنگ لڑنا پڑ رہی ہے کہ مذہباً وہاں مچھر کو مارنا گناہ ہے اس لیے لوگ گھروں، دفاتر اور دکانوں میں بھی سپرے کرنے کی اجازت نہیں دیتے مگر سپرے کارکن زبردستی گھروں دکانوں اور دفاتر میں گھس کر سپرے کرتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ کہ وہاں ہزاروں افراد موسم بدلتے ہی ملیریا اور ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں ان کا علاج معالجہ بھی سرکار کی درد سری ہے۔ اس لیے حکومت بھی زیادہ تر حفاظتی انتظامات پر زور دیتی ہے کہ لوگ خود کو مچھر سے محفوظ رکھیں۔ چنانچہ لوگ روایتی طریقے دھوئیں اور گوبر کی لپائی سے مخصوص قسم کی خوشبو لگا کر یا تیل لگا کر مچھروں کا مقابلہ کرتے ہیں مگر مچھر بھی اب پرانے دور کے نہیں رہے وہ ان تمام انسانی حربوں سے آگاہ ہو چکے ہیں اس لیے نت نئے طریقوں سے ملیریا اور ڈینگی پھیلانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں جس کا ثبوت ہر سال لاکھوں افراد کا دنیا بھر میں اس مچھر کے ہاتھوں عالم بالا روانہ ہونا ہے۔
٭٭٭٭٭٭