پورے ملک میں عام انتخاب کے بعد 14 اکتوبر کو ضمنی انتخاب ہونے جا رہے ہیں۔ حکومتی جماعت تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ، پاکستان پیپلز پارٹی اور اوپوزیشن جماعتیں اپنی اپنی کامیابی کے دعویدار ہیں۔ بھر پور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ اس دوران میاں محمد نوازشریف ، مریم نوازشریف اور کیپٹن صفدر کی ضمانت پر رہائی سے جو سیاسی ماحول بہتر ہوا تھا اور پاکستان مسلم لیگ کے امیدواروں کو حوصلہ اور کامیابی نظر آ رہی تھی ، پاکستان مسلم لیگ کے صدر اور قائد حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف کی آشیانہ ہائوسنگ سکیم میں گرفتاری نے ایک بار پھر سیاسی ماحول کو گرم کر دیا ہے۔ نیب عدالت نے میاں شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر کارکنوں کی کثیر تعداد کی آمد اور پولیس اور بکتر بند گاڑی کو روکنے اور رکاوٹ ڈالنے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے ممبران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی سمیت 140 افراد کے خلاف مقدمات نے مسلم لیگی کارکنوں کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس کے باوجود مسلم لیگی امیدواروں کی لاہور کی مہم بڑے جوش و خروش سے جاری ہے۔ بالخصوص NA-124 میں قائد حزب اختلاف پنجاب حمزہ شہباز شریف بڑے بڑے اجتماعات میں لہو گرما رہے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی خود بھی ہر اجتماع میں شرکت کر رہے ہیں اور میاں محمد نوازشریف کی وفاداری کا تجدید عہد کر کے کارکنوں اور مسلم لیگ کے ووٹروں اور عوام سے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یہ حلقہ پنجاب اسمبلی کے اڑھائی حلقوں پر مشتمل ہے جس سے عام انتخاب میں حمزہ شہباز شریف ، مجتبیٰ شجاع الرحمن اور چوہدری شہباز احمد کامیاب ہوئے تھے۔قومی اسمبلی کے اس حلقہ میں جموں کشمیر کے ووٹروں کی واضح تعداد موجود ہے۔ جن میں مندر بھگت رام ، اقبال پارک ، بادامی باغ، سوامی نگر ، شاد باغ، سلطان پورہ ، گھوڑے شاہ، کپ سٹور، لنڈا بازار، نکلسن روڈ، قلعہ گجر سنگھ، بیگم پورہ، ٹیکسالی گیٹ ، اکبری منڈی، پانی والا تالاب، لوہاری گیٹ شامل ہیں۔ان میں جموں کشمیرکے لوگ رہائش پذیر ہیں ۔ آزاد جموں کشمیر کے وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان بھی کشمیری ووٹروں سے مسلم لیگی امیدواروں کی کامیابی کی اپیل کر چکے ہیں۔ ان کی نامزد کردہ ٹیم بھی شاہد خاقان عباسی اور خواجہ سعد رفیق اور دیگر امیدواروں کی کامیابی کے لئے سرگرم ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار دیوان غلام محی الدین جن کو عمران خان نے حلقے کی سیاسی ووٹروں کی پوزیشن اور محل وقوع کومد نظر رکھتے ہوئے ٹکٹ دیا ہے۔ میرے خیال میں ان کے پاس اس حلقہ سے ان سے بہتر امیدوار شاید نہ ہو۔ کیونکہ وہ خود بھی اسی حلقے کے رہائشی ، نسلاً کشمیری اور کئی بار حلقہ لاہور سے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہو چکے ہیں۔ بڑے متحرک ، انتھک ، محنتی اور 20 گھنٹے لوگوں سے ملنے اور رابطہ رکھنے والے شخص ہیں۔ کاروبار کے علاوہ سیاسی خدمت ان کا مشن ہے۔ ان کی حمایت میں پاکستان تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور ان کی پوری ٹیم میدان عمل میں نکلی ہوئی ہے۔ بیرسٹر سلطان چوہدری خود گلی محلوں میں جا کر انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔دیوان غلام محی الدین کے بقول ہر مکاتب فکر کے لوگوں کی ان کو حمایت حاصل ہے اور روزانہ سینکڑوں لوگ میرے قافلے میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ تو 14 اکتوبر کی شام کو پتہ چلے گا۔ حلقہ NA-131 میں خواجہ سعد رفیق اور تحریک انصاف کے امیدوار ہمایوں اختر خان بھر پور رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خواجہ سعد رفیق مضبوط ، انتھک اور فل ٹائم سیاست کرنے والے لیڈر ہیں۔ وہ اپنی تقریروں اور انٹرویو اور کارنر میٹنگ میں عمران خان اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں اور اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لئے ہر سطح پر رابطہ مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہمایوں اختر خان جو پہلے بھی پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہوئے تھے ۔ آج عمران خان اور تبدیلی کے پروگرام کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں 13 سال بعد بلدیاتی انتخاب ہونے جا رہے ہیں جو 4 مراحل میں ہونگے۔ 20 اکتوبر کو نتائج کا اعلان ہو گا۔ پہلے مرحلے میں ٹرن آئوٹ 2% رہا۔ انٹرنیٹ سروس اور فون سروس معطل رہی۔ ہڑتال سے کاروباری زندگی عملاً بند تھا۔ حتیٰ کہ حکومت کی حامی جماعتیں ، نیشنل کانفرنس اور PDP آرٹیکل 35-A کے معاملے کی وجہ سے بائیکاٹ میں شامل ہیں۔ حریت رہنماء سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق نظر بند ہیں۔ یٰسین ملک اور دیگر کشمیری قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام ہمیشہ کی طرح اس بار بھی الیکشن ڈرامے کو مسترد کر چکے ہیں۔
پاکستان میں جہاں محب وطن لوگوں کی کمی نہیں ہے وہاں پر پشتونخواہ ملی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا بیان مضحکہ خیز اور قابل مذمت ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پشتون پر مشتمل نیا صوبہ بنایا جائے گااور افغانستان کی شہریت حاصل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ جو کام بھارت ، امریکہ اور اسرائیل کر رہا ہے وہ اچکزئی انجام دے رہے ہیں۔ ملک پاکستان میں ایسے لوگوں و جماعتوں نے قائد اعظم کے راستے میں روڑے اٹکائے لیکن با اصول اور مصمم ارادے اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے پاکستان بن گیا۔ ہمارے میڈیا ، سیاسی اور سماجی جماعتوں کو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے تا کہ ان کو اپنی حیثیت کا پتہ چل سکے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38