اتوار ‘ 4؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 14اکتوبر 2018ء
وزیر تعلیم سندھ نے اپنی بیٹی کو سرکاری سکول میں داخل کرا دیا
یہ تو بڑے کمال کی بات ہے، ایک اچھا فیصلہ ہے۔ اس پر وزیر تعلیم سندھ کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ سید سردار علی شاہ نے اپنی صاحبزادی کو سرکاری سکول میں داخل کرکے ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ جن کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اشرافیہ کے سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں۔ جہاں انہیں اشرافیہ کے ادب و آداب سکھائے جاتے ہیں ۔ علم سے زیادہ حکمران کے طور طریقوں سے آشنا کیا جاتا ہے۔ خیر اب یہ وزیر تعلیم سندھ کے اس فیصلے کی بدولت کم از کم اور کچھ نہیں تو سندھ کے اس سکول کی حالت ضرور بدل جائے گی۔ اسے بھی ایک اچھے مدرسہ کا سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ کیا ہی اچھا ہو اگر تمام وزراء اور مشیر اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھائیں تو ملک بھر کے سرکاری سکولوں میں جو کسی بیوہ کی مانگ کی طرح اجڑے ہوئے ہیں ایک بار پھر رنگ بھر جائے گا۔
اس طرح کم از کم والدین کو نجی سکولوں کے تعلیمی اخراجا ت اور فیسوں کے بوجھ سے نجات ملے گی اور طلبہ کی جان بھی بھاری بھرکم بستوں سے چھوٹ جائے گی جن میں کتابیں تو ٹھونسی ہوتی ہیں مگر علم نہیں ہوتا۔ ایک وقت تھا جب سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لئے لائنیں لگی ہوتی تھیں۔ وہی دور اب پھر واپس لانے کی ضرورت ہے تا کہ نجی سکول مافیا سے والدین اور بچوں کی جان چھوٹ سکے۔
٭…٭…٭
ایم کیو ایم نے قبلہ درست نہ کیا تو بلدیاتی الیکشن میں اس سے بدتر حال ہوگا: فاروق ستار
ایم کیو ایم کی جو حالت اس وقت ہے‘ اس کے بعد کسی بدتر حالت کا نظارہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ ان کے اپنے گھر میں پھوٹ کی وجہ سے ان کی دکان اور بیٹھک ان سے چھن گئی ہے۔ چھت پر بھی مخالفین قابض ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے ایم کیو ایم اسی مخالف کے ساتھ اقتدار میں شریک ہونے پر مجبور ہے۔ تو اب ستار بھائی کس کو ڈرا رہے ہیں۔ کس کو بتا رہے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہوگی۔ ذاتی انا اور لیڈرشپ کا زعم پارٹی کو اس حال پر پہنچا چکا ہے کہ ہر ایک خود کو پارٹی کا چاچا یا ماما کہہ رہا ہے۔ اگر اب بھی اطوار نہ بدلے تو پھر ’’رام نام ستے‘‘ ہوگا۔ ہر لیڈر دوسرے سے قربانی مانگ رہا ہے۔ خود کوئی قربانی نہیں دے رہا تو پھر ٹھیک ہے۔ بلدیاتی الیکشن تک انتظار کرتے ہیں۔ اس کے بعد جوہوگا‘ اس خانہ ویرانی کو دیکھ کر شاید ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کے رہنمائوں کے دل پسیج جائیں اور وہ ’’نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے‘‘ ’’ایم کیو ایم‘‘ والوں کا پیغام سمجھ لیں۔ اب ادھر ادھر خطوط بھیج کر مدد طلب کرنا چہ معنی دارد۔ جو سلطنت اپنی طاقت کے بل پر نہ بچائی جا سکے اسے دوسروں سے التجائیں کرکے مانگنا کیوں۔ عوام کے دل جیتیں‘ ان کے دل میں گھر بنائیں‘ پھر کسی میں طاقت نہیں ہوگی مقابلے کی‘ خواہ عام انتخابات ہوں یا بلدیاتی۔
٭…٭…٭
امارات میں 25 سیاستدانوں کی جائیدادوں کا سراغ مل گیا
وفاقی تحقیقاتی ادارے نے یہ رپورٹ تو دیدی مگر ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے جائز یا ناجائز ہونے کا سراغ نہیں لگا سکے۔ اس سے قبل درجنوں یا سینکڑوں سیاستدانوں کے اسی طرح غیرملکی اکائونٹس مل گئے کا بھی خوب چرچاہوا تھا۔ اس پر بڑے شادیانے بھی بجے تھے مگر نتیجہ کیا نکلا۔ ان اکائونٹس میں سے ایک پیسہ بھی ابھی تک پاکستانی خزانے میں جمع نہیں ہو سکا۔ یوں یہ سب دور کے ڈھول سہانے لگے۔ اب بات تو تب ہے کہ جو بھی ادارہ یا حکومت ان اکائونٹس اور جائیدادوں کو پاکستانی خزانے میںداخل کرائے گی تو وہی ’’مہا بلی‘‘ کہلائے گی ورنہ سب کابلی چنے نکلیں گے۔ جو پاکستانی دیار غیر میں اربوںکھربوں کی جائیدادیں بناتے ہیں‘ اکائونٹس کھولتے ہیں‘ اگر یہ سب جائز طریقے سے ہے تو انہیں کوئی ڈر نہیں ہونا چاہئے نہ ہی حکومت ان کو ڈرائے یا دھمکائے۔ ہاں جن لوگوں نے ناجائز طریقے سے یہ سونے کی لنکا بنائی ہے‘ اس کو جلانے کیلئے ضرور کسی ہنومان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان رپورٹوں کے بعد یہ اربوں کھربوں کے سونے کے پہاڑ کب واپس پاکستان لائے جاتے ہیں تاکہ یہ رقم جو پاکستانیوں کی ہے‘ پاکستان کی تعمیروترقی اورخوشحالی کیلئے خرچ ہو ورنہ پاکستانی شہری رپورٹیں عرصہ دراز سے پڑھتے اور سنتے آرہے ہیں صرف دل کو خوش رکھنے کیلئے۔ عمل کسی پر ہوتا نظر نہیں آتا۔
٭…٭…٭
پاکستان موٹے لوگوں کی فہرست میں 9 ویں نمبر پر آگیا
حیرت کی بات ہے جہاں لوگ بات بات پر روٹی‘پانی‘ سبزی‘ گوشت‘ دال اور دودھ کے مہنگا ہونے کا رونا روتے ہیں‘ وہاں یہ صحت مندی کی علامت یعنی موٹاپا کہاں سے گھس آیا۔ پہلے زمانے میں سب کچھ خالص ملتا تھا۔ زندگی بھی سادہ تھی اس لئے موٹا ہونا صحت مند ہونے اور کھاتے پیتے گھرانے کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مگر آج کل تو ہوا بھی خالص نہیں ملتی۔ زندگی بھی مشینی ہو چکی ہے تو اس بھاگ دوڑ والی زندگی میں آرام و اطمینان کہاں رہ گیا کہ انسان صحت مند ہو‘ ہاںالبتہ بقول انیس …؎
’’کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا‘‘
والی حالت ضرور نظرآتی ہے۔ دکھ سہہ سہہ کر غم کھا کھا کر اور آنسو پی پی کر لگتا ہے پوری قوم موٹاپے پر مائل ہورہی ہے۔ ویسے جدید سائنسی تحقیق بھی یہی کہتی ہے کہ جو لوگ پریشان رہتے ہیں‘ کم کھاتے ہیں‘ وہ زیادہ موٹے ہو جاتے ہیں۔
اب حکمران قوم کی حالت پر رحم کھائیں جو دنیا کے موٹے افراد کی لسٹ میں 9 ویں درجے پر پہنچ چکی ہے۔ اس لئے ملک بھر میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ قوم خوش رہے۔ ظاہر ہے جو خوش ہوگا وہ کھانا کھائے گا یوں موٹاپے سے محفو رہے گا ورنہ قوم کہیں غم کھا کھا کر گول گپا نہ بن جائے۔ محاورہ ہے ’’پتلے سے لڑنا کیا‘ موٹے سے ڈرنا کیا۔‘‘ یوں کہیں ہمارے دشمن ہمارے موٹاپے کو دیکھ کر کہیں ہم سے بے خوف نہ ہو جائیں۔