بالآخر پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ’’چپ کا روزہ ‘‘ توڑ دیا ہے۔ اپنی رفیق حیات بیگم کلثوم نواز کی وفات کے بعد میاں نواز شریف نے چالیس روز تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ پچھلے تین ہفتوں سے ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہیں جو جیون ساتھی کے بچھڑ جانے کے بعد کسی پر بھی طاری ہوسکتی ہے۔ میاں نواز شریف خود بھی درد کی اس کیفیت سے باہر نہیں نکلنا چاہتے تھے لیکن ’’جبر ‘‘کے ماحول نے انھیں بھی دوبارہ ’’پرو ایکٹیو‘‘ کردار ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ میاں نواز شریف نے میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے فوراً بعد پاکستان مسلم لیگ ن کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا جس میں مستقبل کی سیاست کے حوالہ سے اہم فیصلے کئے گئے۔ یہ اجلاس میاں نواز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا ہے جس میں نہ صرف میاں شہباز شریف کی گرفتاری کی مذمت کی گئی ہے بلکہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے ساتھ رابطوں کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اسی طرح تاجر برادری سے رابطوں کے لئے کمیٹی بنائی گئی جبکہ تیسری کمیٹی وکلاء پر مشتمل ہے جو نہ صرف مسلم لیگ ن کی قیادت کی قانونی امور میں معاونت کرے گی بلکہ تحریک کے دوران مسلم لیگی ارکان کے خلاف بنائے جانے والے مقدمات لڑے گی۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر’’ سیاسی ٹمپریچر‘‘ میں اضافہ ہوا ہے ۔پاکستان مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طور پر بلانے کے لئے ریکوزیشن جمع کرانے کا فیصلہ کیا ۔ اگلے روز ہی سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق کی قیادت میں مسلم لیگ ن نے وفد نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کومیاں شہباز شریف کی گرفتاری پر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرا دی۔ لیکن اپوزیشن کے اصرار کے باوجود سپیکر نے قومی اسمبلی کا اجلاس فوری طور پر طلب کرنے کی بجائے ریکوزیشن کی مدت ختم ہونے سے تین روز قبل طلب کیا جس پر مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے مل کر 11 اکتوبر کو پارلیمنٹ ہاوس کے صدر دروازے پر’’ عوامی پارلیمنٹ ‘‘کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف بھی میدان عمل میں اتر آئے۔ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے بارے میں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ وہ ’’ مفاہمت ‘‘کی سیاست کر رہے ہیں لیکن عملاً صورتحال مختلف ہے۔ میاں نواز شریف ، میاںشہباز شریف کی گرفتاری کے بعد سیاسی منظر پر ایک بار پھر سرگرم عمل ہو گئے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے متعدد رہنمائوں کا میاں نواز شریف سے براہ راست رابطہ ہے۔ میاں نواز شریف ، مریم نواز ،حسین نواز اور حسن نوازکی جانب سے وزارت داخلہ کو ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لئے درخواست دی گئی ہے جس پر سیاسی حلقوں میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں ‘ جس کے جی میں جو آتا ہے وہ میاں نواز شریف کے بارے میں یہ جانے بغیر کہ نواز شریف کی سیاسی ڈکشنری میں ’’این آر او‘‘ نام کا کوئی لفظ نہیں، کہہ دیتا ہے۔
میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کا یہ آئینی حق ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی سفر کر سکیں لہذا ان کا نام ای سی ایل پر ڈالنا ریاستی جبر ہے ۔ جب نواز شریف اور ان کے خاندان پر ابتلا کا دور شروع ہوا تو اس وقت وہ ’’ این آر او‘‘ کر کے بیرون ملک چلے جاتے لیکن انھوں نے این آر او کرنے پر قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے کو ترجیح دی۔ قید و بند کی صعوبتیں نواز شریف کے لئے کوئی نئی بات نہیں لیکن ان کی بہادر بیٹی مریم نواز نے جس جرأت و استقامت کے ساتھ اڈیالہ جیل میں قید کے دن کاٹے، وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔ اڈیالہ جیل سے مریم نواز جہاں ’’ آئرن لیڈی‘‘ بن کر نکلی ہیں، وہاں ان کے لئے پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی قوتیں بھی مریم نواز کی صلاحیتوں کی معترف نظر آتی ہیں ۔ ان ہی حلقوں میں اب یہ رائے پائی جاتی ہے کہ مریم نواز ملک کی مستقبل کی لیڈر ہیں لہذا ان کی نئی حیثیت کی قبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ میاں نواز شریف نے جہاں مسلم لیگ ن کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کو پارٹی کی تنظیم نو کا کام 90 دن کے اند مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے وہاں انھوں نے پارٹی کے رہنمائوں کو اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے رابطے کا ٹاسک دے دیا ہے۔
اس سلسلے میں متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری سے اہم ملاقات کی ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ انھوں نے میاں نواز شریف کا پیغام ان تک پہنچایا ہے۔ میاں نواز شریف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے عمران خان کی حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانا چاہتے ہیں لیکن تاحال پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت’’ مخمصے‘‘ کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی کی وائس چیئرمین شیری رحمان نے مسلم لیگ ن کی جانب سے11 اکتوبر2018ء کو طلب کردہ عوامی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کا اعلان کرنے کے باوجود پیپلز پارٹی کے کسی ایک رکن نے بھی پارلیمنٹ کا رخ نہیں کیا جبکہ سابق قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ہر قیمت پر اجلاس میں شرکت کا وعدہ کیا تھا۔ میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد گذشتہ ہفتے سابق وزیراعظم نواز شریف نے احتساب عدالت اسلام آباد میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انتقامی سیاست کر رہی ہے اور اگر اس کو احتساب کہتے ہیں تو یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے، آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام پر کوئی بھی پاکستانی نہیں بچ سکتا، امیر ہو یا غریب، جائیداد بیچنے پر مکمل آمدن ظاہر نہیں کرتا، وزیراعظم اور وزرا کے منہ سے خود باتیں نکل رہی ہوں تو اس کو کیا کہا جائے، حکومت کے لوگ کہہ رہے ہیں 50لوگ اور گرفتار ہوں گے ۔ نیب میں سلمان شہباز کو بلانے سے بڑا مذاق کیا ہو گا۔ موجودہ حکومت کے کچھ لوگوں نے شہباز شریف پر الزام لگایا تو چینی حکومت کی وضاحت پر شہباز شریف پر الزام لگانے والوں کو منہ کی کھانا پڑی ۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لئے بھی17 نومبر 2018ء کی حتمی ڈیڈ لائن دی ہے ، چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ یہ آخری توسیع ہے اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف مقدمات جلد نمٹائے جا رہے ہیں ۔ یہ واضح ہے نواز شریف’’ این آر او‘‘ کر کے کہیں نہیں جا رہے ’’این آر او‘‘ کا شوشہ چھوڑ کر ان کے سیاسی مخالفین منصوبہ بندی کے تحت ان کی کردار کشی کر رہے ہیں ۔ میاں نواز شریف پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جنھیں ایک سال کے عرصے کے دوران احتساب عدالت میں سوا سو سے زائد پیشیاں بھگتنا پڑی ہیں اور وہ احتساب عدالت میں پیشی سے بچنے کے لئے بیرون ملک نہیں گئے۔ مسلم لیگ ن کے قائد محمد نواز شریف کی ہدایت پر مسلم لیگ ن نے پارلیمنٹ ہائوس کے صدر دروازے کے سامنے میاں شہباز شریف کی گرفتاری اور ریکوزیشن پر فوری طور پر اجلاس تاخیر سے طلب کئے جانے پر پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے عوامی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس میں 16اکتوبر کومسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کیلئے شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے اورنیب اور حکومتی کی انتقامی کاروائیوں کے خلاف قراردادیں منظور کی گئیں۔ شاہراہ دستور پر علامتی پارلیمنٹ کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) اور دیگر اتحادی جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے میاں شہبازشریف کی گرفتاری پر شدید احتجاج کیا ہے ۔ اجلاس میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی، جمعیت علماء اسلام(ف) کے ارکان پارلیمنٹ اظہار یکجہتی کے طور پر شرکت کی البتہ پیپلز پارٹی ،عوامی نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ عوامی پارلیمنٹ کے اجلاس میں سینیٹر چوہدری تنویر خان، رانا تنویر حسین، رانا ثناء اللہ ، آصف کرمانی، مرتضی جاوید عباسی، مولانا عطاء الرحمان، شاہدہ اختر علی، عثمان کاکڑ اور دیگر رہنمائوں نے دھواں دار تقاریر کیں۔ اجلاس میں بیگم طاہرہ اورنگزیب اور سیما جیلانی مسلم لیگی خواتین دیگر مسلم لیگی خواتین کے ہمراہ موجود تھیں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نے پارلیمانی پارٹی کا اجلاس 16 اکتوبر کو طلب کر لیا ہے جس میں 17 اکتوبر کو ریکوزیشن پر طلب کئے گئے اجلاس کے حوالے سے حکمت عملی تیار کی جائے گی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی رات مسلم لیگ ن اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں جن میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے کا ایک اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں متحدہ اپوزیشن کے قیام کے حوالے سے پیش رفت کا امکان ہے لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ میاں نواز شریف کے بارے میں کچھ نہ جاننے والے عناصر کو ’’این آر او‘‘ کی قیاس آرائیاں کرنے کی بجائے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ میاں نواز شریف نے ملکی سیاست میں’’ پرو ایکٹیو‘‘ رول ادا کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024